اسلام آباد ہائی کورٹ نے انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل) سے نکالنے کا حکم دے دیا۔
وفاق دارالحکومت میں عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اسد درانی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر سماعت کی، اس دوران عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر کو پیش ہونے کی ہدایت کی جبکہ اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ عدالت میں موجود تھے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اسد درانی کا نام، انکوائری زیر التوا ہونے کی وجہ سے ای سی ایل میں ڈالا گیا تھا، (تاہم) سارا ریکارڈ دیکھا اس وقت اسد درانی کے خلاف کوئی انکوائری زیر التوا نہیں، نہ کوئی گراؤنڈ ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہر عام شہری کی طرح ان کے تھری اسٹار جنرل (ر) کے بھی حقوق ہیں، ساتھ ہی عدالت نے استفسار کیا کہ کوئی گراؤنڈ بتائیں، اگر نہیں ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ان کا نام ای سی ایل میں رکھا جائے۔
بعد ازاں عدالت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل پیش ہوئے جس پر چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کیا کہ آپ نے کہا تھا کہ اسد درانی کا نام ای سی ایل میں اس لیے رکھا کہ ان کے خلاف انکوائری چل رہی ہے۔
عدالت نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق اس وقت کوئی انکوائری نہیں چل رہی، درخواست گزار ایک تھری اسٹار جنرل (ر) ہے اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی بھی رہے ہیں، مزید یہ کہ اب وہ ایک عام شہری ہیں اور آزاد گھومنا ان کا حق ہے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا وفاقی حکومت کو کھلی چھوٹ تو نہیں کہ کسی کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دے، اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزارت دفاع کے نمائندے کو نوٹس کرکے ان سے جواب طلب کرلیا جائے۔
ان کی اس بات پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کسی کو بھی بلانے کی کوئی ضرورت نہیں، ریکارڈ کے مطابق اسد درانی کے خلاف کوئی تازہ انکوائری نہیں، ان کا نام ای سی ایل میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔
جس کے بعد عدالت عالیہ نے اسد درانی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیتے ہوئے سابق ڈی جی آئی ایس آئی کی درخواست ہدایات کے ساتھ نمٹا دی۔خیال رہے کہ جنرل (ر) اسد درانی کا نام بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کے سابق سربراہ کے ساتھ مشترکہ طور پر کتاب لکھنے پر ای سی ایل میں شامل کیا گیا تھا جس کے خلاف انہوں نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔