قلندر کےمعمولات زیست میں ایک فریضہ مریدوں کو روز ایک کہانی سنانا تھا۔ کبھی کبھی اسے گماں گذرتا کہ مریدالف لیلی کے بادشاہ شہریار اور وہ شہزادی شہرزادہے۔ مریدوں کو ہدایت تھی کہ کہانی بیزاری سے سنیں تاکہ قلندر سو نہ جائے داستان کہتے کہتے۔
'جاہلوں آج کی کہانی میرےجانی دوست خان بے نمازی کے بارے میں ہے۔ میرے لیئے یہ کتنا عظیم اور اہم ہے، اس بات کا اندازہ تم بے عقل اس سے لگانا کہ اسی نے میرا نکاح پڑھایا تھا۔ اور وقت کا پابند ایسا تھا کہ شادی کے منڈپ پر سب سے پہلے پہنچا ۔ ہال میں الو بول رہتے تھے! اسکے آنے کے کچھ دیر بعد ہماری بیگم صاحبہ پدھاریں اور انہیں welcomeکیا۔ اسکے بعد ہم پہنچے۔ اب سنو!'
'سید گھرانے کا چشم و چراغ خان بے نمازی اپنے عہد کا عظیم دانشور تھا۔ ہر لحاظ اور زاویے سےسچا، کھرا اور سکہ بند۔ علم ، فہم و فراست کاٹھاٹھے مارتا دریا۔ سب کے لئے وافر مقدار میں ہمیشہ دستیاب۔ اپنی اپنی بساط کے مطابق جو بھی پیالہ لے کر اسکے پاس آتا بھر کے واپس لے جاتا۔ بلوچ تھا۔ سدا سے نا انصافی کا شکار۔ اپنے حق کے لئے لڑا۔ بھاری قیمت چکائی۔ تشدد برداشت کیا۔ جسم کی کوئی ہڈی ایسی نہ بچی جو کڑکڑاتی نہ ہو۔ اعلی تعلیمیافتہ تھا۔ لندن سے بھی پڑھ کر آیا۔ Chevening scholar تھا۔ جون ایلیا کی طرح دنیا کی ہر زبان اسکی انگلیوں پر ناچتی ۔ کیا انگریزی کیا اردو کیا فارسی، ہر زبان اسکے در کی لونڈی ۔ ملیشیا کی شلوار قمیض اور پٹھانوں والی چپل پہنتا ۔ ساخت کے حساب سے بالکل تیلی پہلوان تھا یعنی منحنی۔ قد درمیانہ ۔ سادہ غذا لیتا مگر نسوار ، چرس اور شراب اعلی کوالٹی کی پیتا تھا۔ آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگا کر بالکل الو دکھائی دیتا مگرمغرب والا جہاں یہ پرندہ دانائی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ حلیےاور قطع وضع سے سو فیصد پاوڈری یا جہاز کے علاوہ کچھ اور نہ دکھتا تھا۔ '
'بڑوں بڑوں کی طبعیت سیکنڈوں میں صاف کرنے کا ملکہ رکھتا تھا مگر ان کی پیٹھ پیچھے۔ سامنے واہ واہ ہی کیا کرتا تھا ۔ پھپھے کٹنی کا male version تھا لہذا نجی محفلوں میں دل کی بات زباں پہ لے آتا یہ جانے بغیر کہ آس پاس دوست اور دشمن کون ہے۔ مدہوش ہوئے بغیر ترنگ میں آ نہیں سکتا تھا۔ بڑے لوگوں کے جاسوس جو اسکی محفل میں دوست کے بھیس میں شریک ہوتے ، بےنمازی کا دسترخواں دل بہلانے والی چیزوں سے بھر دیتے ۔ اسطرح دل کی باتیں زبان پر آ جاتیں۔'
'ادھیڑ عمر کا ہو چکا تھا۔ شادی ابھی تک نہ کی تھی۔ ماں ایک ہی رٹ لگائے بیٹھی تھی۔ بیٹا پکی نوکری کر، شادی کر اور اپنا گھر بنا۔ پر بے نمازی میں مستقل مزاجی کاشدید فقدان تھا۔ کسی بھی سرکاری کوٹھے پر ساٹھ کے بعد مستقل پینشن والا دھندہ کرنا اسے منظور نہ تھا۔ البتہ غیر سرکاری کوٹھوں (نیشنل اور انٹرنیشنل) پرگائے بگائے کام کر لیتا تھا مگر کسی ایک کے ساتھ مستقل وابستگی کا وجود اسکے فلسفہ حیات سے باہر تھا۔ آج فلاں کوٹھےپر ریسرچ پیپر لکھ دیا۔ بغل والے کوٹھےکے donorکو رام کرنے کے لئے رپورٹ لکھ دی۔ اس کوٹھے کو leadership پر بھاشن دے دیا۔ اگلے ہفتے ساتھ والی گلی کے کوٹھے کے سٹاف کو sexual harassment پر ٹریننگ دے کر اسکی capacity building کردی۔ سال میں ایک آدھ دفعہ غیر ملکی کوٹھوں پر حاضری دی اور اسی قماش کی consultancyکر دی۔ '
'جس کوٹھے پہ بے نمازی پرفارم کر رہا ہو وہاں رونقیں دو نہیں چار بالا ہو جاتیں مگر کوئی بھی کوٹھا اس رونق کو طویل بنیاد پر انجوائے کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ بے نمازی پیٹ کا بہت ہی ہلکا تھا۔ واپس آ کر 'بادشاہ کے سر پر دو سینگ' والہ پلٹہ اس نے جنگل بیاباں میں کسی درخت کی جڑوں میں سرگوشی کے انداز میں نہیں بلکہ اپنی خاص محفل میں سب تماش بینوں کے سامنے ہی کرنا ہوتا ہے۔ نتیجتاً جلد ہی یہ persona non-grata قرار دے دیا جاتا۔ لیکن پھر کوئی نیا کوٹھا آجو باجو کھل جاتا جہاں اسے چھوٹی موٹی consultancyمل جاتی جس سے نسوار ، دال، دوا اور دارو سب ہی چل جاتے۔ '
'نہ جانے کیسے اسے ایک لڑکی سے عشق ہو گیا اور اس نے اسی سے شادی کر لی۔ یہ اس کی زندگی کی آخری غلطی تھی۔ وقت بہت بڑا استاد ہوتا ہے۔ اسی گرو نے اسے کم از کم ایک بات تو سکھا دی کہ میاں دریا میں رہنا ہے تو مگر مچھ سے بیر نہیں رکھا جا سکتا۔ سو اس نے اپنی پالیسی پرایسے ہی یو ٹرن لیا جیسے پاکستان نے نائن الیون کے بعد۔ یہ یوٹرن لینا تھا کہ اس کی زندگی بدل گئی۔'
'شادی سے قبل بے نمازی تمام قوموں کے متحدہ کوٹھے جسکا نام Divided Nationsتھا پر پرفارم کرناگناہ سمجھتا تھا۔ اس کوٹھے سے منسلک ہر گویے اور سازندے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ شادی کے بعد ایک نئے بےنمازی نے جنم لیا۔ وہ تان پلٹہ ایجاد کیا کہ اسی کوٹھے کا باونسر خود چل کر اس کے پاس آیا اور درخواست کی کہ حضور سب بے سرے بے تالے ہوچکے ہیں۔ طویل المددتی بنیادوں پر ہر سازندے، گویے اور رنڈی کو سخت کوچنگ کی ضرورت ہے۔ نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی کوٹھوں میں بھی رچاؤ ختم ہو چکا ہے۔ سو بین لااقوامی سطح پر ایک مربوط ریاضت کا پروگرام designکرنے کا ٹھیکہ پکڑیں اور بالا خانوں کی عظمت رفتہ بحال کریں۔ بے نمازی نے جھٹ سے ٹھیکہ پکڑ لیا اور اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
کامیابی بھی اسکے گھر کی لونڈی بن گئی۔ اب بے نمازی کے پاس سب کچھ ہے بشمول عزت، دولت اور شہرت۔ وہ اب ایک کامیاب انسان ہے۔ لیکن اسنے قیمت کچھ عجب ادا کی۔ وہ تو پیدائشی دانشور تھا۔ دنیاوی کامیابی کے لئے اسے اصلی دانشوری چھوڑ کر پہروپیے دانشور کی قطع وضع اختیار کرنی پڑی۔
علاقائی لباس پہن کر فوٹو شوٹ، چہرے پر مصنوعی سنجیدگی سجا کر ٹٹ پونچیے شاعروں کا پھٹیچر کلام اپنی آواز میں جسے اصل میں نصیبو لال کو گانا چاہیے ریکارڈ کراتا ہے۔ بڑی بڑی ریکارڈنگ کمپنیاں اسکی DVDsریلیز کرتی ہیں۔ فیس بک پر واہ واہ ہوتی ہے لیکن سچے پرانے دوست یہ ہی کہتے کہ خاں صاحب آپ ہنس ہو کر کیوں کوئے کی چال چل رہے ہیں۔ آپ تو پیدائشی غلام علی ہیں، کیوں بھونڈی نقل کر کے جگجیت سنگھ بننا چاہ رہے ہیں؟ لیکن بے نمازی کچھ اور سوچ رہا ہے۔
اب ریٹائرمنٹ کے قریب ہے۔ pseudo intellectual کے بھیس میں اپنا ذاتی کوٹھا کھولنے کے لئے یہ سب تو کرنا پڑتا ہی ہے۔ '
Contributor
محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔