وزیر اعظم عمران خان نے جمعرات کو صبح اٹھتے ہی سب سے پہلے تو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سربراہ آئی ایس آئی جنرل فیض حمید سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں کیا ہوا، کیا نہیں ہوا، کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ سینیٹ کے الیکشن میں اسلام آباد کی اہم ترین سیٹ ہارنے کے بعد یہ وزیر اعظم کی اگلے دن صبح پہلی سیاسی سرگرمی تھی۔ نجانے اس کو سیاسی کہنا درست بھی ہے یا نہیں کیونکہ اس ملاقات کی نہ تو کوئی پریس ریلیز سامنے آئی، نہ ہی کوئی تصاویر میڈیا کو جاری کی گئیں۔ صحافی تو یہ تک پوچھ رہے ہیں کہ اس کی خبر بھی پتہ لگوانا چاہیے کہ کس طرف سے میڈیا کو دی گئی کیونکہ ISPR کا طریق تو عموماً یہی ہوتا ہے کہ وہ ملاقات کی کوئی پریس ریلیز یا تصاویر وغیرہ جاری کرتا ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس ملاقات میں گذشتہ روز کے سینیٹ الیکشن پر کوئی بات چیت ہوئی، وزیر اعظم کے اعتماد کے ووٹ پر کوئی بات ہوئی، کسی بھی قسم کی کوئی سیاسی بات ہوئی بھی یا یہ محض ایک سکیورٹی امور سے متعلق ملاقات تھی، اس بارے میں کسی کے پاس کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے۔
مگر یہ ہوا کہ یہ ملاقات ختم ہوتے ہی اطلاع آئی کہ شام کو وزیر اعظم عمران خان قوم سے خطاب کریں گے۔ اس خطاب سے کچھ دیر پہلے ہی بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس کر کے یہ واضح کر دیا کہ وہ وزیر اعظم کی جانب سے کسی قسم کے اعتماد کے ووٹ لیے جانے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے کیونکہ آئینی طور پر اعتماد کا ووٹ لینے کو صرف صدر ہی کہہ سکتا ہے اور وہ بھی صرف اس صورت میں کہ جب اسے یقین ہو چکا ہو کہ وزیر اعظم قومی اسمبلی میں اکثریت کھو چکے ہیں، گویا کوئی اتحادی جماعتیں کہہ چکی ہوں کہ وہ حکومت کے ساتھ نہیں، حزبِ اختلاف میں بیٹھنے کی درخواست دے چکی ہوں، یہی صورت ہے جس سے صدر کو یہ اندازہ ہو سکتا ہے۔ لیکن صدر کی طرف سے ایسا کچھ آیا نہیں۔ اپوزیشن نے تحریکِ عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا نہیں، تو آئینی طور پر اس اعتماد کے ووٹ کی کوئی حیثیت نہیں۔ لیکن اس پریس کانفرنس میں بلاول نے اصل بم تو یہ پھوڑا کہ وہ عثمان بزدار کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پہلے لائیں گے۔
اس حوالے سے خبر سے آگے میں بات کرتے ہوئے مزمل سہروردی نے کچھ بریکنگ نیوز بھی دی، جس کے مطابق پنجاب میں پرویز الٰہی پاکستان تحریک انصاف ہی کے ووٹوں سے اپنی حکومت بنانے جا رہے ہیں، اور اس حوالے سے مسلم لیگ نواز نے بھی گرین سگنل دے ڈالا ہے۔
تاہم، شام کو وزیر اعظم عمران خان نے جب قوم سے خطاب کیا تو وہ بہت غصے میں تھے۔ گذشتہ ادوارِ حکومت میں نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی، آصف علی زرداری کی باڈی لینگوئج پر کچھ جید صحافی بہت سیر حاصل تبصرے کیا کرتے تھے۔ وہ خود کو باڈی لینگوئج یا بدن بولی سمجھنے کا ماہر بھی قرار دیا کرتے تھے۔ لیکن عمران خان کے معاملے میں آپ کو ماہر ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ ان کے اوسان خطا تھے۔ انہوں نے پہلے تو ایک لمبی تقریر اپنی دہائیوں پر مبنی مبینہ جدوجہد پر جھاڑی۔ اس کے بعد انہوں نے مخالفین کو خوب لتاڑا، انہیں کرپٹ، چور، ڈاکو کہا۔ یوسف رضا گیلانی کو زرداری کی کرپشن چھپانے والا وزیر اعظم قرار دیا۔ اعلان فرمایا کہ وہ کبھی این آر او نہیں دیں گے۔
اور پھر انہوں نے الیکشن کمیشن کی طرف اپنا رخ کیا۔ الیکشن کمیشن کو انہوں نے سینیٹ انتخابات کے لئے ہوئی مبینہ خرید و فروخت کا الزام دیا۔ سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ میں جا کر خفیہ ووٹنگ کی حمایت کیوں کی؟
ان کا استفسار سراسر بے بنیاد ہے۔ الیکشن کمیشن نے تو محض عدالت کو یہ بتایا کہ آئین میں کیا لکھا ہے۔ ماضی میں الیکشن کمیشن اتنا بہادر نہیں تھا لیکن اصولی طور پر تو اسے ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔ الیکشن کمیشن پر یوں بھی آج کل حکومتی جماعت کو ڈسکہ کا بہت غصہ ہے۔ وہ بھی نکال دیا۔
لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے یہاں اپنے نکالے جانے کی صورت بھی بیان کی۔ اعتماد کا ووٹ نہ ملنے کی صورت میں اعلان کیا کہ اپوزیشن میں چلے جائیں گے لیکن کرپشن کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے کا عزم دہرایا۔
سینیئر صحافی طلعت حسین کا کہنا ہے کہ یہ مقتدر قوتوں کو پیغام تھا کہ مجھے نکالا گیا تو احتجاج ہوگا۔ لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ احتجاج کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ نواز شریف 2017 میں نکالے گئے تھے تو اس کی وجہ کچھ بھی رہی ہو، حقیقت یہی ہے کہ اگلے کئی ماہ تک تمام سرویز کے مطابق وہ ملک کے مقبول ترین رہنما تھے۔ لیکن عمران خان کی حمایت میں سرویز ان کی ایسی مقبولیت نہیں دکھا رہے۔ سب سے بڑا سروے تو انتخابات ہی ہوتے ہیں۔ سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں انہیں ہر جگہ شکست ہوئی۔ ڈسکہ کی سیٹ پر دھاندلی کی گواہی خود الیکشن کمیشن دے چکا ہے۔ خود اپنی اہم ترین نشست سے نوشہرہ میں PTI شکست کھا گئی۔ لے دے کر صرف ایک کرم کی سیٹ ملی۔ اور اس کی وجہ یقیناً مہنگائی اور خراب گورننس ہے۔ تو پھر ایسی گرتی مقبولیت کے دوران انہیں باہر نکال دیا گیا، تو احتجاج کے لئے سڑکوں پر ان کے ساتھ عوام نکلیں گے؟ دیکھتے ہیں۔۔۔