تحریک انصاف کا مینڈیٹ نہ تسلیم کرنا ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہے

دریائے سندھ کے ایک طرف خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہئیت مقتدرہ کے خلاف مزاحمتی سیاسی سوچ پائی جاتی ہے اور دوسری طرف پنجاب اور سندھ میں نام نہاد حکمران سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ہئیت مقتدرہ کے اشاروں پر کٹھ پتلیاں بننے کے بعد ایوانوں میں براجمان ہیں۔

تحریک انصاف کا مینڈیٹ نہ تسلیم کرنا ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہے

اس وقت وطن عزیز کی سیاسی فضا حوصلہ افزا نہیں ہے۔ توقع تھی کہ 8 فروری کے انتخابات کے بعد ایک مستحکم سیاسی حکومت معرض وجود میں آئے گی مگر ایسا ممکن نہیں ہو سکا کیونکہ 8 فروری کے انتخابات کے نتائج مشکوک ہو چکے ہیں۔ مبینہ طور پر ہونے والی بڑے پیمانے پر دھاندلی نے انتخابات کی ساکھ متاثر کر دی ہے۔ پہلے تحریک انصاف، پھر جی ڈی اے، پھر مولانا فضل الرحمان، کمشنر راولپنڈی اور پھر متحدہ قومی موومنٹ کے مصطفیٰ کمال اور گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی ویڈیو لیک نے یہ مہر ثبت کر دی ہے کہ الیکشن کمیشن نے جانبدار ہو کر تحریک انصاف کو کچلنے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔

انتخابی نشان بلا چھیننے کے عمل سے لے کر کاغذات نامزدگی کے حصول، جمع کرانے کے دوران چھیننے، مسترد کرنے اور 9 فروری کے نتائج کے اعلان تک سب کچھ مشکوک انداز میں کیا گیا ہے۔ غیر ملکی میڈیا اور فافن کی رپورٹ بھی یہی کہتی ہے۔ اس وقت ایک گہری خلیج دریائے سندھ کے دونوں اطراف میں واقع صوبوں میں مختلف سیاسی سوچ کی صورت میں موجود ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان جو دریائے سندھ کے ایک طرف ہیں، وہاں ہئیت مقتدرہ کے خلاف مزاحمتی سیاسی سوچ پائی جاتی ہے اور دریائے سندھ کے دوسری طرف پنجاب اور سندھ میں نام نہاد حکمران سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز جن کی کامیابی پر سوالیہ نشان ہے، ہئیت مقتدرہ کے اشاروں پر کٹھ پتلیاں بننے کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

تحریک انصاف، محمود خان اچکزئی، اختر مینگل، اے این پی اور مولانا فضل الرحمان؛ سب ہئیت مقتدرہ کے خلاف بھرپور تقریریں کر رہے ہیں جبکہ آصف علی زرداری، نواز شریف اور شہباز شریف ہئیت مقتدرہ کے حق میں بول رہے ہیں کیونکہ ان کا اقتدار ان ہی کی وجہ سے ہے۔ اس وسیع سیاسی خلیج کی ذمہ داری ہئیت مقتدرہ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ تحریک انصاف نے پورے ملک سے انتخابی نشان نہ ہونے کے باوجود کامیابی حاصل کی ہے۔ کراچی میں مبینہ طور پر تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو چھین کر ایم کیو ایم اور نون لیگ میں تقسیم کر دیا گیا۔ اندرون سندھ میں جی ڈی اے نے اپنی دونوں سندھ اسمبلی کی سیٹیں نہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے حق پر خفیہ ہاتھ چل گیا۔ ادھر بانی ایم کیو ایم الطاف حسین نے بھی کہا کہ کراچی سے تحریک انصاف کو فتح ملی۔ اپنے ٹویٹ میں انہوں نے واضح طور پہ کراچی کے نتائج پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

صدارتی انتخاب میں تحریک انصاف محمود خان اچکزئی کی حمایت کر رہی ہے۔ نون لیگ آصف علی زرداری کی حمایت کر رہی ہے جس سے دریائے سندھ کے اطراف میں ڈالی گئی خلیج واضح ہوتی ہے۔ اگر انتخابات شفاف طریقے سے ہوئے ہوتے تو وطن عزیز میں سیاسی استحکام آ چکا ہوتا۔ نامور صحافی امتیاز عالم جو خود الیکشن میں حصہ لے چکے ہیں اور مبینہ طور پر ہونے والی دھاندلی کے عینی شاہد ہیں، صاف لکھ رہے ہیں کہ ان انتخابات کی ساکھ تباہ شدہ ہے اور ہئیت مقتدرہ کی عوامی مینڈیٹ قبول نہ کرنے کی روایت برقرار رہی ہے۔

پہلی خلیج مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے بیچ ڈالی گئی تھی جس کے نتیجے میں سانحہ مشرقی پاکستان ہوا تھا۔ وجہ عوامی مینڈیٹ نہ قبول کرنا تھا اور اب یہ خلیج دریائے سندھ کے اطراف میں ڈال دی گئی ہے کیونکہ تحریک انصاف کو دونوں اطراف کامیابی ملی ہے مگر اس کو دریائے سندھ کے اس طرف دھکیل کر قوم پرست جماعتوں کے ساتھ ہئیت مقتدرہ کے خلاف جنگ کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ یہ ایک ملک گیر سیاسی جماعت کے ساتھ ناانصافی تو ہے ہی، وطن عزیز کی سلامتی کے ساتھ بھی کھلواڑ کرنے کی کوشش ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔