بیوروکریسی اور سیاست کا پرانا ڈھانچہ ڈیجیٹل دور میں غیر فعال ہو چکا

اس چیلنج کا سامنا محض پرانے سیاسی نظام کو ہی نہیں ہے، سول سروس کا زنگ آلود سٹیل فریم بھی نئے میڈیا اور دیگر بیرونی عوامل کے دباؤ کے سامنے پگھلتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ حالات جلد بہتر ہوتے نظر نہیں آتے، رائج بیوروکریٹک ڈھانچے اور موجودہ سیاسی نظام کی موجودگی میں تو کبھی بھی نہیں!

بیوروکریسی اور سیاست کا پرانا ڈھانچہ ڈیجیٹل دور میں غیر فعال ہو چکا

سول سروس کا ڈھانچہ، جسے تاریخی طور پر ہندوستان میں برطانوی حکومت کا سٹیل فریم کہا جاتا تھا، پرانے سیاسی نظام کے ساتھ آہستہ آہستہ پگھلتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کا تعلق نئے دور کے میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز سے ہے جس نے پاکستانی معاشرے اور سیاست کو نمایاں طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ اس کا اظہار 8 فروری کے انتخابات کے واقعات سے واضح طور پہ ہوتا ہے۔

2014 کے موسم گرما میں، میں نے لاہور کی ایک یونیورسٹی میں 'نیا میڈیا اور پرانی سیاست' کے موضوع پر ایک لیکچر دیا۔ میرا مقالہ یہ تھا کہ پاکستان میں سیاست کا روایتی انداز اور طریقہ کار نئے ذرائع ابلاغ کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ سوشل میڈیا چینلز کے ذریعے معلومات کی ترسیل بڑی حد تک کنٹرول سے باہر ہے، جس سے روایتی سنسرشپ غیر مؤثر ہو گئی ہے۔ منتخب میڈیا پلیٹ فارمز کو غیر فعال کرنے کی کوششیں صرف جزوی طور پر معلومات کے بہاؤ کو روکنے کا کام کرتی ہیں، جس سے عام لوگوں کے لئے کوفت کے علاوہ اور کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ اس طرح کے اقدامات کے منفی سیاسی نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔

میں نے اپنے لیکچر میں یہ دلیل بھی دی کہ سمارٹ فونز کی وسیع پیمانے پر دستیابی نے دیہی اور شہری، خواندہ اور ناخواندہ آبادی کے درمیان روایتی فرق کو دھندلا دیا ہے۔ یعنی کسی فرد کے مقام یا تعلیمی پس منظر سے قطع نظر سمارٹ فون نے اسے معلومات تک یکساں رسائی دے رکھی ہے۔ حالیہ انتخابات کے نتائج اس بات کا ثبوت ہیں جس میں شہری اور دیہی ووٹروں نے یکساں طور پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے انتخابی نشانات کے بارے میں خود کو آگاہ کرنے کے لئے موبائل فون کا استعمال کیا اور موبائل سگنلز میں خلل ڈالنے کی کوششیں پرعزم عوام کے سامنے بے اثر ثابت ہوئیں۔

یہاں تک کہ انتخابات کے بعد بھی پی ٹی آئی کے امیدواروں نے انتخابی دھاندلی کے اپنے بیانیے کو تقویت دینے کے لیے فوری طور پر فارم 45-47 میں تضادات کو سمارٹ فون کے ذریعے پھیلایا۔ اس بیانیے نے بین الاقوامی میڈیا کی توجہ حاصل کی اور مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جیسی دیگر جماعتوں کے لیے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے مشکلات میں اضافہ کیا۔ یہ مثال پرانی طرز کے سیاسی طریقوں پر ٹیکنالوجی کے گہرے اثرات کو اجاگر کرتی ہے، جہاں اب سیاست کے روایتی طریقوں کے پیروکار غیر متوقع چیلنجوں سے نبرد آزما ہیں۔ میں نے جولائی 2023 میں فرائیڈے ٹائمز میں اپنے مضمون میں الیکٹ ایبل سیاست کے خاتمے کی پیشگوئی بھی کی تھی، جس کی تصدیق 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں استحکام پاکستان پارٹی اور اس طرح کے دیگر امیدواروں کی زبردست شکست سے ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ ان جیسے دوسرے الیکٹ ایبل امیدواروں کی جیت بھی عوام کی نظروں میں سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔

اس چیلنج کا سامنا محض پرانے سیاسی نظام کو ہی نہیں ہے، سول سروس کا زنگ آلود سٹیل فریم بھی نئے میڈیا اور دیگر بیرونی عوامل کے دباؤ کے سامنے پگھلتا دکھائی دے رہا ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

حقیقت یہ ہے کہ سول سروس اور ان کے پرانے سیاسی حلیف دونوں کے اشتراک سے قومی خزانے اور ملکی ترقی کو زک پہنچی ہے۔ موجودہ معاشی اشاریوں کا جائزہ لینے سے سنگین صورت حال کا پتہ چلتا ہے؛ پاکستان اگلے دو سالوں میں بین الاقوامی قرض دہندگان کو 26 ارب ڈالر واپس کرنے کا پابند ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 1.6 ارب ڈالر ہے۔ افراط زر تقریباً 40 فیصد ہے۔ انڈپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کا گردشی قرضہ 4 کھرب روپے کے قریب ہے۔ یہ مالی بوجھ حکومتی اخراجات کی وجہ سے مزید بڑھ جاتا ہے، جس میں صرف وفاقی حکومت کا 850 ارب روپے سے زائد کا پنشن بل بھی شامل ہے۔ پاکستان کی 22 سال سے کم عمر آبادی ملک کی کل آبادی کا 60 فیصد ہے جسے ہر سال 30 لاکھ ملازمتوں کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو اگلے 30 سال تک 7 فیصد جی ڈی پی شرح نمو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس، اگلے دو سالوں میں جی ڈی پی کی شرح نمو تقریباً 0.5 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ معاشی توسیع میں اس جمود کا مطلب نوجوان آبادی کے لئے روزگار کے مواقع تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بچوں کی اس بڑی تعداد کو نہیں بھولنا چاہیے جو سکول سے باہر ہیں۔ وہ تعلیم کے بغیر کیا بنیں گے، کیا کریں گے؟

یہ حالات جلد بہتر ہوتے نظر نہیں آتے، موجودہ بیوروکریٹک ڈھانچے اور موجودہ سیاسی نظام کی موجودگی میں تو کبھی بھی نہیں!

اس مارچ میں شروع ہونے والے 24 ویں آئی ایم ایف پروگرام پر ایک مختصر نظر ڈالیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پہلے ہی اگلے تین سالوں میں 6 ارب ڈالر کے قرض کی منظوری کے لئے چار شرائط مقرر کر چکا ہے؛ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو اس مدت میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کو 15 فیصد تک بڑھانا ہوگا۔ سٹیٹ بینک کو درآمدی بل کے تین ماہ کے مساوی زرمبادلہ کے ذخائر برقرار رکھنے ہوں گے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے اور پرائمری بیلنس میں سرپلس برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے اور ان حالات میں سب سے زیادہ تکلیف دہ عمل تمام سبسڈیز کا خاتمہ ہے، بشمول زرعی اور صنعتی شعبوں کے لیے، یعنی ان شعبوں کے لیے گیس اور بجلی کی سبسڈیز کا خاتمہ۔ اگر آئی ایم ایف کے ان مطالبات پر عمل درآمد ہوتا ہے تو یوٹیلیٹی بلز، اشیائے ضروریہ سمیت خوراک کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہو جائے گا۔

ان حقائق کے پیش نظر حال ہی میں منتخب ہونے والی وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اپنے والد میاں نواز شریف کے مشورے پر صوبے کی پولیس فورس کو وسعت دینے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ ان کے والد کے دور میں بھرتی کیے گئے پولیس و دیگر سرکاری افسر اب اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور شریف خاندان کے ساتھ وفاداری کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی طرز پہ صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی یہی کیا ہے۔ اس حکمت عملی نے بلاشبہ دونوں جماعتوں کو اہم سیاسی فوائد بہم پہنچائے ہیں، جس سے وہ قومی سطح پر اپنی ناقص کارکردگی کے باوجود ان دو صوبوں میں غلبہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یہ پولیس افسران اور سرکاری ملازمین غیر متزلزل لگن کے ساتھ اپنے سیاسی آقاؤں کے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں، جس سے یہ دونوں پارٹیاں اقتدار پہ اپنی گرفت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

اس کے باوجود، مستقبل قریب میں یہ منظرنامہ تبدیلی کے لیے تیار نظر آتا ہے۔ بین الاقوامی عطیہ دہندگان اب ملک کی معاشی رکاوٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے سرکاری ملکیت والے انٹرپرائزز (ایس او ایز) کے اندر حکومتی مداخلت میں کمی پر زور دے رہے ہیں۔ سول سروس کی سمجھوتہ شدہ ذہانت نے معاملات کو اس نازک موڑ پر پہنچا دیا ہے، جہاں وہ اپنے سیاسی آقاؤں کے خاتمے کے ساتھ اپنی طاقت کھو بیٹھیں گے۔ جیسا کہ موجودہ رجحانات ظاہر کرتے ہیں اور سیاسی تجزیہ کار بیان کر رہے ہیں، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا اتحاد اقتدار میں کچھ زیادہ لمبا عرصہ رہتا نظر نہیں آتا۔ ان کے جانے سے سندھ اور پنجاب کی سول سروسز کے ساتھ ساتھ ان جماعتوں کی جانب سے بھرتی کیے جانے والے پولیس افسران کو بھی بڑا دھچکہ لگے گا۔ جیسے جیسے یہ احساس سرکاری عہدیداروں میں پھیلنا شروع ہو گا، ان کا رویہ بھی اپنے سیاسی آقاؤں کے بارے میں لامحالہ تبدیل ہونا شروع ہو جائے گا، حتی کہ وہ خود اس تلخ حقیقت کے روبرو آ کھڑے ہوں گے کہ باورچی خانے میں بہت کم خوراک بچی ہے جو ان کے تنومند وجود کو قائم رکھنے سے قاصر ہے۔

فولاد کا زنگ آلود فریم پرانے سیاسی نظام کے ساتھ پگھلنے کے لیے تیار ہے!