ججز کی تقرری سے متعلق آئینی ترامیم پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کا ردِ عمل آگیا۔ ایک بیان میں ترجمان پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ ملک میں اداروں کی جو تباہی ہو رہی ہے ججز تقرری آئینی ترامیم اسی روایت کا تسلسل ہے۔ حکومت نے پچھلے دوسالوں میں ہر وہ فیصلہ کیا ہے جس سے آئین و قانون کی بالادستی کو نقصان پہنچتا ہے اور ادارے کمزور ہوتے ہیں۔ موجودہ حکمران اداروں کو اس لئے کمزور کرتے ہیں تاکہ اپنے غیر قانونی اور غیر آئینی ایجنڈے کو آگے بڑھا سکیں۔
تحریک انصاف کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اداروں کی مضبوطی اور مضبوط ریاست بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کا وژن ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنی مدت ملازمت کے پورے عرصے کے دوران بطور چیف جسٹس جو طرزِ عمل اختیار کیا ہے وہ آئین و قانون کے حوالے سے نہایت افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے آئین و قانون کی بالادستی پر سمجھوتہ کر کہ اپنے منصب کی وقعت کو کم کیا ہے۔ قاضی فائز عیسی نے عدلیہ کی آزادی میں ماورائے دستور اور ماورائے جمہوریت قوتوں کا دروازہ کھولا ہے جس کے بھیانک اثرات دوررس ہوں گے۔
ترجمان پی ٹی آئی نے کہا کہ قوم یہ سمجھ رہی ہے کہ کس طرح ایک جمہوری پارٹی سے بلے کا نشان چھیننے اور اس کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے میں سہولتکاری کی گئی ہے جس کا معاوضہ چیف جسٹس صاحب کو ایک ایکسٹینشن کی صورت میں مل رہا ہے۔ چیف جسٹس مدت ملازمت میں توسیع ایک رشوت کے طور پر لے رہے ہیں جوکہ نہایت شرمناک اور قابلِ مذمت ہے۔ پاکستان کا دستور ایسے کسی بھی مخصوص شخص کیلئے آئین میں ترامیم کی اجازت نہیں دیتا۔ قانون سازی ہمیشہ ان موضاعات پر کی جاتی ہے جہاں اجتماعی مفاد ہو۔ پاکستان تحریک انصاف اس ترامیم کی ہر قانونی اور جمہورتی طریقے سے مخالفت کرے گی اور اس کا راستہ پارلیمان میں بھی روکے گی۔
دوسری جانب وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت سے متعلق تجاویز گردش کر رہی ہیں جسے یکسر مسترد نہیں کروں گا۔ وزیر اعظم نے ججوں کی تعیناتی کے لیے آئینی ترمیم کی ہدایت کردی ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وضاحت دی کہ چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت 3 سال کرنے یا پھر سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سے بڑھا 68 سال کرنے کی تجاویز سامنے آرہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ ان تجاویز کو یکسر مسترد نہیں کریں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی ججز کی تعیناتی کے لیے آئینی ترمیم کی ہدایت کردی ہے۔
وفاقی وزیر نے واضح کیا کہ تاہم ابھی تک بطور وزیرقانون کام کی ہدایت نہیں ملی لیکن اس معاملے کو مسترد نہیں کریں گے۔
وزیر قانون نے کہا کہ 19ویں ترمیم کے بعد پارلیمانی کمیٹی کی حیثیت ربڑ سٹمپ جیسی ہوگئی ہے جبکہ 18ویں ترمیم میں بھی ججز کی تقرری میں توازن رکھا گیا تھا۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
گزشتہ روز ججوں کی تقرری کے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی زیرصدارت ہوا جس میں سپریم کورٹ کے سینیئر پانچ ججز، وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس، پانچوں ہائیکورٹس کے چیف جسٹس، ہائیکورٹس کے سینیئر ججز، وفاقی وزیرقانون، صوبائی وزرائے قانون، بارکونسلزکے نمائندے اور اٹارنی جنرل شریف ہوئے۔
ججوں کی تقرری کے لیے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ حکومت آئین کے آرٹیکل 175 اے میں ترمیم پر غور کر رہی ہے۔ امکان ہے کہ آئینی ترمیم سے جوڈیشل کمیشن کی ساخت تبدیل ہوجائے۔ اس لیے اجلاس ملتوی کیا جائے۔
اجلاس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے تجویز دی کی کہ چونکہ حکومت آئینی ترمیم پر غور کر رہی ہے ۔ اس لیے اجلاس مؤخر کردیا جائے۔
تاہم جوڈیشل کمیشن کے تمام ارکان کے اتفاق سے کمیشن کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا، کمیشن کے ارکان نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ججز تقرری کا عمل نہیں رکنا چاہیے۔
جوڈیشل کمیشن اجلاس میں موجودہ رولزکے تحت اعلی عدلیہ میں تقرریوں کا عمل جاری رکھنے پراتفاق کیا گیا۔
واضح رہے کہ ترامیم کے مسودے کو 4 دسمبر 2023 کو قائم کی گئی کمیٹی نے حتمی شکل دی جس کے چیئرمین سپریم کورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ، شریک چیئرمین سابق جج منظور ملک اور دیگر تھے۔
2010 میں جاری کردہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان رولز میں ترامیم کی تجویز پر غور کرنے والے اہم شعبوں میں کمیشن کے اجلاس بلانے اور فیصلے کرنے، سپریم کورٹ میں نامزدگیوں ، اعلیٰ عدالتوں میں نامزدگیوں، ضلعی عدلیہ اور بار کی ترقی کے لیے مناسب نمائندگی، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں ججوں کی تقرری کے لیے انتخاب کا معیار، ہائی کورٹس میں ایڈیشنل ججوں کی تصدیق، کمیشن کے سیکریٹریٹ کا قیام، سیکریٹری اور دیگر عملے کی تقرری کا عمل شامل ہے۔
کمیٹی نے تجویز پیش کی کہ سپریم کورٹ کے جج کی تقرری کے لیے چیئرپرسن مقرر کردہ معیار کے مطابق ہر اسامی کے لیے 3 افراد کے نام تجویز کرے گا اور اس آسامی کے خالی ہونے سے 15 دن قبل غور و خوض کے لیے کمیشن کا اجلاس بلائے گا۔
مجوزہ مسودے میں مزید کہا گیا کہ کہ اس کے بعد کمیشن پارلیمانی کمیٹی کی خالی جگہ کے لیے اکثریت سے ایک شخص کو نامزد کرے گا۔
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی ترقی کے لیے، جہاں روایتی طور پر سب سے سینئر جج کو یہ قلمدان دیا جاتا ہے۔ ترامیم نے تجویز دی ہے کہ چیف جسٹس کا تقرر اسی ہائی کورٹ کے 5 سینئر ججوں کے پینل سے کیا جائے گا۔
اس میں کہا گیا ہے کہ کسی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے چیئر پرسن اس عہدے کے خالی ہونے سے ایک ماہ پہلے ہائی کورٹ کے پانچ سب سے سینئر ججوں کے ناموں پر غور و خوض کے لیے کمیشن کی میٹنگ بلائے گا۔
بعد ازاں کمیشن ججوں کی تقرری سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کو ایک نام بھجوائے گا۔
ترامیم میں بار کونسلز کی فعال شرکت کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے کیونکہ وکلا کے ریگولیٹری اداروں کے نمائندے خود کو اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے عمل میں خاموش تماشائی کے طور پر محسوس کرتے ہیں حالانکہ آئینی ترمیم کے ذریعے ان کا کردار اس میں شامل کیا گیا تھا۔