جسٹس فائز عیسٰی کی جانب سے صدارتی ریفرنس کیخلاف دائر درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے وکیل منیر ملک کہتے ہیں ”صدر مملکت نے ریفرنس اپنی صوبداید پر بھیجا ہے یا پھر کابینہ یا وزیراعظم کی سفارش پر کیونکہ کسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھیجتے ہوئے صدرمملکت کا وزیر اعظم کی سفارش پر عمل کرنا غیر آئینی ہے۔“
جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی فل کورٹ بینچ نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی کیخلاف آئینی درخواستوں پر سماعت کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر ملک نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ”آرٹیکل 248 کے تحت وزیراعظم اور وزرا اپنے فیصلوں پر کسی عدالت کو جوابدہ نہیں تاہم وزیراعظم اور وزرا آئین و قانون کے پابند ہیں۔ غیرآئینی و غیرقانونی اقدام پر کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ درخواست میں وزیر اعظم اور صدر مملکت پر براہ راست کونسا الزام ہے۔“
منیر ملک بولے ”جن لوگوں پر بدنیتی کا الزام ہے ان کو فریق بنانا لازم ہے۔ لہذا وزیراعظم، صدر مملکت اور وزیر قانون کو اس کاروائی کا حصہ بننا چاہیئے۔ عدالتی استفسار پر کہ آیا ان شخصیات کی بدنیتی ریکارڈ پر موجود ہے یا نہیں۔ وکیل منیر ملک کا کہنا تھا کہ ریکارڈ پر مذکورہ شخصیات کی قانونی اور حقائق پر بدنیتی موجود ہے۔“
جسٹس عمر عطا بندیال نے دریافت کیا کہ یہ بتائیں ریفرنس میں کہاں بدنیتی کی گئی۔ جس پر منیر ملک نے کہا کہ کسی جج کے خلاف ریفرنس بھجوانے میں صدرمملکت کی جانب سے وزیراعظم کی سفارش پر عمل کرنا غیر آئینی ہے۔ صدر مملکت نے ریفرنس پر اپنا ذہن استعمال نہیں کیا اور وہ تسلیم کرچکے ہیں کہ اس حوالے سے انہوں نے وزیراعظم کی سفارش پر عمل کیا۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی.