ریٹائرمنٹ سے قبل جنرل باجوہ کی قلندر سے الوداعی ملاقات!

ریٹائرمنٹ سے قبل جنرل باجوہ کی قلندر سے الوداعی ملاقات!
جنرل باجوہ کئی صدیوں سے یہ اعلان کرتے آ رہے ہیں کہ انہیں مدت ملازمت میں مزید توسیع نہیں چاہئیے لیکن ناہنجار صحافی، سیاست دان، سفارت کار اور دیگر چٹے بٹّے ان کی اس بات کا یقین ہی نہیں کرتے۔ اس پر جنرل باجوہ کے ذہن میں ایک اچھوتا خیال کوندا۔

'قلندر کے آستانے پر حاضری دیتا ہوں۔ اسے الوداعی ملاقات کا نام دوں گا۔ ساری دنیا کا میڈیا وہیں ہوتا ہے۔ اس طرح سب کو یقین ہو جائے گا کہ میں نومبر کے آخر میں ریٹائرڈ ہو جاؤں گا۔'
یوں اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے جنرل باجوہ قلندر کے آستانے پہ حاضری دینے کی تیاری پکڑتے ہیں۔

قلندر گرم جوشی سے استقبال کرتا ہے۔ آنے کا مقصد دریافت کرتا ہے۔

'سرکار آپ کے علم میں یہ فوجی روایت تو ہے کہ ریٹائرمنٹ سے کچھ روز قبل آرمی چیف الوداعی ملاقاتیں شروع کر دیتا ہے۔ میں نے سوچا اس نیک کام کی شروعات آپ کے آستانے پر حاضری دے کر کروں۔'

'بہت اچھا کیا تو نے۔ اگر مجھ سے آغاز نہ کرتا تو دنیا تیری ریٹائرمنٹ والی بات پر ہرگز یقین نہ کرتی۔ مگر اب انہیں یقین کرنا ہی پڑے گا۔ اچھا بول کیا پیے گا؟ چائے، شربت، سیون اپ، کوکا کولا یا روح افزا۔'

'سرکار چائے اور بسکٹ منگوا لیں۔ آج بسکٹ چائے میں بھگو کر کھانے کو جی چاہ رہا ہے۔'

'ہاں میں جانتا ہوں۔ کاکول کی یاد تازہ کرنا چاہتا ہے نہ تُو؟'
'آپ بہت ہی پہنچے ہوئے ہیں۔ دل کا حال جان لیتے ہیں۔' جنرل باجوہ مسکراتے ہوئے بولے۔
'سرکار کچھ مشورے بھی کرنے ہیں!'
'معلوم ہے مجھے۔ بول بول۔ یہ سب اپنے ہی آدمی ہیں۔ ڈان لیکس کے نہیں!' قلندر تسلی دیتے بولا۔
'حضور یہ پاٹے خان نے بہت دق کیا ہوا ہے۔ اسے کیسے قابو کروں؟'
'ابے تجھے سمجھایا تھا میں نے کہ اسے مت بنا۔ لیکن تو نے میری ایک نہ سنی اور اب کیا دقّت ہے؟ تُو جانے والا ہے۔ پاٹے خان اب آنے والے کا مسئلہ ہے۔ ہاں اگر تیرا ارادہ کچھ اور ہے تو میرے پاس ایک نہیں سینکڑوں حل ہیں۔'

'نہیں سرکار میں سو فیصد جا رہا ہوں۔ لیکن یہ میرے متّھے ہی لگے گا۔ کہیں ریٹائرمنٹ کے دن سے پہلے ہی کھڑاک نہ کر دے۔'

'ابے نہیں کرے گا۔ اتنا دم خم نہیں پاٹے میں۔ بس بک بک کرنے کی عادت ہے اسے۔ چھ دن سے وہی گھسی پٹی کیسٹ چلا رہا ہے۔ انقلاب لے کر آ رہا ہوں۔ گنجا جنرل جیلانی کے گھر پر سریا لگایا کرتا تھا۔ تیرے جانثاروں کو ڈرٹی ہیری کہہ دیوے گا۔ تجھے میر جعفر سے تشبیہ دے دے گا۔ مشرف کے مارشل لاء کو تیرے انداز حکمرانی سے بہتر قراد دے گا یا پھر ارشد شریف، اعظم سواتی اور شہباز گل والا رنڈی رونا شروع کر دے گا۔ انقلاب کی ابجد سے بھی واقف نہیں وہ۔ ہاں انتشار ضرور پھیلا رہا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ تو اس ملک میں ڈینگی پھیلا ہوا ہے۔' قلندر جنرل باجوہ کو تسلی دیتے ہوئے بولا۔

'مائی باپ پھر بھی اسے نتھ پانا ضروری ہو گیا ہے۔ کیا خیال ہے اس مرتبہ میں بقلم خود نہ پریس کانفرنس کر دوں؟'

'ابے ایسی حماقت کی تو بہت ہی بے مزہ ہو گا۔ یہ ڈی جی آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر والی مشترکہ پریس کانفرنس ہی کی برکات ہیں کہ فوج کے بارے میں جو بکواس پہلے یہود و ہنود و نصاریٰ اپنے ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کر کیا کرتے تھے، وہ اب ہر ایرا غیرا کھلے عام جلسوں میں کرتا پھر رہا ہے۔ مجھے بہت ہی دکھ ہوتا ہے جب ہر کن ٹٹے کو باجوہ باجوہ کرتے دیکھتا ہوں۔ ایسا ہوا کبھی پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں؟ جو نقصان فوج کو بڑے سے بڑا دشمن نہ پہنچا سکا، وہ اس پریس کانفرنس سے ہاتھوں ہاتھ اور راتوں رات پہنچ گیا۔ اس کی مثال زرداری والی ہے۔ پی پی پی کا اس نے وہ بیڑہ غرق کیا جو ضیاء الحق گیارہ برسوں میں بھی نہیں کر سکا تھا۔ اور اب تو چلا ہے ایک اور پریس کانفرنس کرنے!'

'پھر کیا کروں سرکار؟'
'ایسا کر کہ ایک آئینی ترمیم کر کے نیو دہلی کو پاکستان کا دارالخلافہ قرار دے دے۔ پاٹے خان اور یوتھیوں میں کون سی عقل یا کامن سینس ہے۔ فوراً یو ٹرن لے لیں گے اور اپنا مودی ان کو ایسا سبق سکھائے گا کہ نیتا گیری بھول جائیں گے۔' قلندر بولا۔

'واہ سرکار کیا بات ہے آپ کی۔ ایسے ہی تو دنیا آپ کو قلندر نہیں مانتی۔ ایک اور سوال ہے۔۔۔'
'ابے جو بھی ہو پوچھ لیا کر۔ یہ تمہیدیں نہ باندھا کر۔'
'سرکار وردی اتر جانے کے بعد عوام مجھے کیسے یاد کریں گے؟'
'ابے یہ جاننا کیا مشکل ہے۔ تُو ریٹائرمنٹ کے اگلے ہی دن اسلام آباد کلب کھانے پر پہنچ جائیو جیسے تو چند دہائیاں قبل وہاں گیا تھا۔ ابے پنکھے کیا نام ہے اس صحافی کا جس نے رپورٹ کیا تھا کہ جنرل باجوہ اسلام آباد کلب کے لنگر خانے پہنچ گئے اور جھولی اپنے ہاتھ میں پھیلا قطار میں لگ گئے۔ بہت تحمل سے کھڑے رہے۔ لوگوں میں گھل مل گئے۔ ہر کن کٹے کو آٹو گراف دیے۔ مسکرا مسکرا کر سب کو سیلفیاں لینے دیں۔ اور اس کے بعد چھولے پلاؤ کی نیاز اپنی جھولی میں ڈلوا کر فرش پر عوام کے ساتھ چوکڑی مار کر اپنے ہی ہاتھوں سے کھانے لگ گئے۔ اور اس طرح خلفائے راشدین کی یاد تازہ ہو گئی۔'

'سرکار نام چھوڑیں، بندہ سمجھ میں آ گیا۔' پنکھا، قلندر کا اے ڈی سی بولا۔

'ہاں وہی۔ یار بہت اچھا لکھتا ہے۔ زبان پر عبور تو دیکھ۔' قلندر پنکھے سے ہم کلام تھا۔ پھر جنرل باجوہ کی جانب مخاطب ہوا۔

'تو تو چلا جائیو۔ اگر اگلے دن ایسی ہی چول روزنامہ بھنگ میں چھپ گئی تو سمجھ لے تیری شہرت سلمان خان اور شاہ رخ خان کی طرح بڑی ڈیمانڈ میں ہے۔'

'اور سرکار اگر نہ چھپی تو؟'
'تو پھر پرانی خبر پڑھ کر ناسٹل جک ہو جائیو۔'
'مجھے ناسٹیلجیا پسند نہیں حضور۔ کوئی ایسا اپائے تجویز کیجیے کہ میں پھر کلب جاؤں اور اب کے ایک نہیں ایک ہزار خوشامدیوں کی فوج ہو اور نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا کے ہر روزنامہ بھنگ میں میری آنیاں جانیاں جلی حروف کے ساتھ صفحہ اول کی زینت بنیں۔'

'اس کے لیے بڑا جگرا چاہیئے باجوے۔ ہے تیرے پاس؟'
'کیوں نہیں سرکار۔ فوجی ہوں۔ فوجی پہاڑوں سے بھی ٹکرا جاتا ہے۔'
'تو پھر فی الفور مارشل لاء لگا دے!' قلندر نے بہت سکون و وثوق سے مشورہ دیا۔
'مارشل لاء؟ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ حجور؟ انٹرنیشنل کمیونٹی کیا کہے گی؟ اور اپنا پاٹے خان تو اور بھی باولا نہیں ہو جائے گا؟' جنرل باجوہ نے تشویش ناک انداز میں قلندر کے قریب آ کر اس کے کان میں سرگوشی کی۔

'ابے وہیں بیٹھ، کچھ بھی نہیں ہو گا۔ بھول گیا زلفی کا ٹیم؟'
'وہ یوتھیا زلفی بخاری؟'
'ابے نہیں۔ ایک تو تم فوجی لوگ مطالعہ نہیں کرتے اور نہ تمہیں اتہاس کا علم ہوتا ہے۔ میں بلاول کے نانا کا ذکر کر رہا ہوں۔ زیڈ اے بھٹو۔ تجھے علم نہ ہوگا کیونکہ تو اس ٹیم بچہ تھا۔ جیالے کہتے تھے کہ خون کی ندیاں بہہ جاویں گی اگر بھٹو کو پھانسی دی گئی۔ اور اپنے ضیاء نے پھانسی دی۔ نہ سعودی عرب کی پروا کی، نہ چین کی۔ اس کے بعد ایسی خاموشی کہ پوچھ مت۔ بقول غالبؔ:

'کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا!

اور اب تو پاٹے خان نے بھی او کے کردیا ہے' قلندر بولا۔

'کیا مطلب؟'
'ابے کہا نہیں اس نے کہ لگا دے مارشل لاء۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس تو 'میرے ہم وطنوں' والا تان پلٹہ آج ہی پی ٹی وی پر کر دے۔ پورے ملک میں انٹرنیٹ بند کر۔ سب میڈیا چینلوں کو دجالی قرار دے کر ان پر پابندی دھر دے۔ اوریا مقبول جان کو کہہ کہ کوئی اور خواب گھڑے جس میں تجھے مارشل لاء کی بشارت دی جا رہی ہو۔ اور ہو جاوے گا دما دم مست قلندر!'

'واہ سرکار۔ اب بات سمجھ میں آئی۔ میں ابھی پی ٹی وی سدھارتا ہوں۔'
'ابے پورا پی ٹی وی آستانے پر ہی ہے۔ بازو والے کمرے میں سیٹ بھی لگا ہوا ہے۔ اپنے محمد علی جناح اور اقبال سیالکوٹی کے پورٹریٹ بھی بیک گراؤنڈ میں لگے ہوئے ہیں۔ تو بس جا اور وہی پرانا راگ الاپنا شروع کردے۔'

'کون سا والا سرکار؟'
'ابے وہی کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ اور وسیع تر ملکی مفاد میں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ مسلح افواج ملک کی باگ ڈور سنبھال لیں نہ چاہتے ہوئے بھی۔'

'واہ سرکار۔ اور انترا کون سا رکھوں؟'
'ابے کچھ بدلنے کی ضرورت نہیں۔ وہی پرانا۔۔۔ نوے دن میں الیکشن والا!'
'اور انٹرنیشنل کمیونٹی؟'
'ابے یہ سالی تو روز اول سے مارشل لاء کا خیر مقدم کرتی آئی ہے۔ اوپر اوپر سے تنقید کرتی ہے مگر اندر اندر سے سب کو پتہ ہے۔ تو فکر نہ کر۔ چل شاباش اٹھ اور ہو جا شروع!'

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔