انتخابات سے قبل ہی ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں سیٹیں کون بانٹ رہا ہے؟

جب چیف الیکشن کمشنر عدالت میں پیش ہوئے تو منصف اعلیٰ نے بھی ان سے یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ آپ 90 روز میں الیکشن نہ کرانے کی وجہ سے آئین شکن ہو چکے ہیں اور آپ پر غداری کا مقدمہ بن سکتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے سابق اور موجودہ منصف اعلیٰ اس سرعام ہوئی آئین شکنی پر جیف الیکشن کمشنر سے جواب طلب نہیں کر سکتے؟

انتخابات سے قبل ہی ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں سیٹیں کون بانٹ رہا ہے؟

بالآخر پاکستان میں عام انتخابات کا بگل بج گیا ہے۔ عام انتخابات اب 8 فروری 2024 کو منعقد ہوں گے۔ یہ سب معاملات پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے منصف اعلیٰ کی عدالت میں زیر سماعت مقدمہ کے دوران طے ہوئے جہاں الیکشن کمیشن آف پاکستان سے جب منصف اعلیٰ نے پوچھا کہ کیا آپ نے صدر پاکستان عارف علوی سے مشاورت کر لی ہے تو الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ نئے قانون کے تحت ہم صدر پاکستان سے مشاورت کے پابند نہیں ہیں، ہم 11 فروری کو الیکشن کروانے کے لیے تیار ہیں جس پر منصف اعلیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ان کو صدر پاکستان سے مشاورت کا حکم دیا۔ پھر الیکشن کمیشن کا وفد چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان کی قیادت میں ایوان صدر گیا۔

یاد رہے یہ وہی چیف الیکشن کمشنر ہے جو ایک ماہ قبل صدر پاکستان کا الیکشن کی مشاورت کے لئے لکھا ہوا خط حقارت سے ٹھکرا چکا ہے مگر اب عدالت عظمیٰ کے حکم پر بے شرمی اور ڈھٹائی سے ایوان صدر میں صدر پاکستان سے مشاورت کے لئے پہنچ گیا۔ واقعی قدرت نے سکندر سلطان راجہ جیسے گوہر نایاب بھی پاکستان کو عطا کیے ہیں۔ وہاں چائے کے کپ پر منصب صدارت پر فائز عارف علوی صاحب نے بھی 11 کی بحائے 8 فروری کو الیکشن کا کہا جسے گوہر نایاب سکندر سلطان نے فوراً مان لیا اور ملاقات کے بعد 8 فروری 2024 کو عام انتخابات کا اعلامیہ جاری کر دیا۔

وطن عزیز پاکستان پچھلے ایک سال سے بے آئین سرزمین ہے۔ یہاں آئین پاکستان کو درگور کر دیا گیا ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق اب تک پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن ہو چکے ہونے تھے اور قومی اسمبلی، سندھ اور بلوچستان کے انتخابات 9 نومبر کو ہونے تھے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی نگران صوبائی حکومتیں غیر آئینی ہیں جبکہ وفاقی، سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں 9 نومبر کے بعد غیر آئینی ہو جائیں گی مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رنیگ رہی۔

کہا جاتا ہے سکندر سلطان راجہ جب گلگت بلتستان کے چیف سیکرٹری تھے تب وہاں کے کماندار سے ان کی گہری دوستی تھی۔ وہ کماندار اب ملک کا طاقت ور ترین شخص ہے۔ مقام حیرت یہ ہے کہ پاکستان کے سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے بھی اپنے حکم کہ 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرائے جائیں، کو نہ ماننے پر کسی کو توہین عدالت پر فارغ نہیں کیا۔ نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جو آئین و قانون کے بہت بڑے علم بردار ہیں، انہوں نے بھی منصب پر فائز ہونے کے بعد پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل اور پھر فیض آباد دھرنا کیس لگا دیا مگر 90 روز میں عام انتخابات کا انعقاد نہ ہونے والے اس قدر اہم ترین کیس کو 23 اکتوبر کو پہلی سماعت کی۔

جب چیف الیکشن کمشنر عدالت میں پیش ہوئے تو منصف اعلیٰ نے بھی ان سے یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ آپ 90 روز میں الیکشن نہ کرانے کی وجہ سے آئین شکن ہو چکے ہیں اور آپ پر غداری کا مقدمہ بن سکتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے سابق اور موجودہ منصف اعلیٰ اس سرعام ہوئی آئین شکنی پر جیف الیکشن کمشنر سے جواب طلب نہیں کر سکتے۔ کہیں وہ بات سچ تو نہیں کہ گلگت بلتسان کے ماضی کے کماندار جو اب سب سے طاقتور فرد ہیں، اس سے چیف الیکشن کمشنر کی دوستی کی وجہ سے کوئی ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔

اب یہ سب چل رہا ہے اور اسی دوران پاکستان کے مقبول صحافی سہیل وڑائچ کا کالم 'ہونے کیا جا رہا ہے؟' شائع ہوتا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ الیکشن کے بعد مسلم لیگ نواز 70 سے 76 اور پیپلز پارٹی 60 سے 65 سیٹیں جیت کر مخلوط حکومت بنا لیں گے۔ وزیر اعظم مسلم لیگ نواز کا اور صدر پیپلز پارٹی کا ہو گا۔ اس کالم پر اپنے وی لاگ میں تبصرہ کرتے ہوئے معروف صحافی وجاہت سعید خان نے کہا کہ چونکہ ماضی میں میں بھی طاقت ور حلقوں کے نزدیک رہا ہوں اس لیے میں جانتا ہوں کہ سہیل وڑائچ نے بھی انہی طاقتور حلقوں کے کہنے پر یہ کالم لکھا ہے اور ساتھ ہی عام انتخابات کا بگل بجا دیا گیا ہے۔ کیا پاکستان کے منصف اعلیٰ اس کالم کا نوٹس لیں گے کہ ابھی الیکشن تو ہوئے ہی نہیں تو پھر یہ سیٹوں کی بندر بانٹ کون کر رہا ہے؟ کیا ایسا ہو گا؟ میرے خیال میں ہنوز دلی دور است۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔