میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا اسے کمیونسٹوں کی بے وفائی نے مارا یا سندھی علیحدگی پسندوں کے ساتھ خطرناک یاریوں اور پنگوں نے، مگر اتنا ضرور یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اسے جلاوطنی نے وقت سے پہلے ہی مار ڈالا۔ اس جلاوطنی نے جسے ہندوستان میں جلاوطن سندھی افسانہ و ناول نگار موہن کلپنا نے "روحانی کینسر" قرار دیا تھا کہ واقعی جلاوطنی ایک روحانی کینسر ہوتا ہے۔
میرا بچپن کا یار غار جس کے فعلوں سے نہیں بلکہ مجھے اس کی یاری سے کام تھا، جسے بہت سے لوگ میر سلیم یا میر سلیم سنائی کے نام سے جانتے ہیں اور جسے میں میرے سرفو یا سرفراز میمن کے نام سے جانتا ہوں، کل رات جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں یہ جہان رنگ و بو اور رنج و غم چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گیا۔ وہ گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ سے دماغی فالج اور دل کے دورے کی وجہ سے کوما میں چلا گیا تھا۔ اس نے وصیت کی تھی کہ اسے سن میں دفن کیا جائے لیکن سرفراز بطور میر سلیم سنائی سن میں دفن نہیں ہو سکتا تھا!
سرفراز میمن یا میر سلیم، نذیر عباسی کا محبوب ساتھی گذشتہ 44 برس سے جلاوطنی میں تھا۔ جلاوطنی میں جانے سے قبل اور ما بعد جب تک کوما میں نہیں گیا تھا، وہ نیند ہو ہو چاہے بیداری میں، لمحہ لمحہ سندھ اور ملک کے مظلوم لوگوں کیساتھ رہا۔ سوشل میڈیا تو ابھی آیا ہے جس پر دن رات سرگرداں و سرگرم رہنے نے بھی اس کی جسمانی و ذہنی صحت پر نہایت ہی گہرے اثرات ڈالے۔ وہ سوشل میڈیا آنے سے بھی پہلے ای میل لسٹوں کے زمانے سے آخر تک لیپ ٹاپ گوریلا رہا۔ وہ پرجوش و پرعزم رہا۔ بچپن سے جوانی، جوانی سے بڑھاپے اور بڑھاپے سے تادم مرگ وہ سچ مچ کا آدرشی اور انقلابی رہا۔
اس کے ہاتھ کی مٹھیاں بھنچیں، اس کے ہونٹ اور اس کی آنکھیں اور بھنویں کمان کی طرح تنی رہیں جیسے انیس سو تیس اور چالیس کی دہائی میں انارکسٹ انقلابیوں کے پوسٹر ہوا کرتے تھے۔ اس میں محبوبیت اور سرمستی ساتھ ساتھ رہتی تھی۔ ایک معشوق صفت آدمی جس نے نراجیت پسندی کا لبادہ اوڑھ لیا تھا یعنی بقول نون میم دانش کے، زندگی کو الٹا پہن لیا تھا۔ ایک خواب پرست انقلابی۔ سخت ایجیٹیشنر۔ اسی توانائی و تن دہی سے آخر تک ڈٹا رہا جو میں نے اس میں انیس سو ستر کی دہائی میں دیکھی تھی۔ وہ واقعی تندی باد مخالف سے نہ گھبرانے والا عقاب تھا۔ اگرچہ وہ ہرگز اقبال کا مدح سرا نہیں بلکہ بلکا شاہ لطیف بھٹائی کا فقیر تھا۔
سرفراز میمن کا تعلق سندھ میں تھر کے اس علاقے ڈیپلو سے تھا جہاں سے اب تک بیش تر بیوپاری کاروباری لوگ، بیوروکریٹ، جج، وکیل، اساتذہ، ڈاکٹر،شاعر،ادیب پیدا ہوئے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا نام محمد عثمان ڈیپلائی تھا جس نے ادب اور افسانے کے ذریعے سندھ میں پیروں کی روحانی ڈکٹیٹرشپ کیخلاف جنگ جوتی ہوئی تھی۔ جس نے سندھ میں انگریزوں کیخلاف حر بغاوت کے پس منظر میں شاہکار ضخیم ناول “سانگھڑ” لکھا ہے جس میں اس کی یہ پیغمبرانہ پیشنگوئی بھی ایک فرضی طور پر جی ایم سید اور پیر پگاڑو صبغت اللہ شاہ کے درمیان مکالمے کی صورت میں موجود ہے جو آج تک افسانوی نہیں بلکہ سچ سمجھا جاتا ہے اور جو واقعی سچ ثابت ہوا۔ وہ یہ ہے کہ جب پیر پگاڑو کو جی ایم سید بحیثیت آل انڈیا مسلم لیگ سندھ کے صدر کی حیثیت سے جناح کی اس پارٹی میں شرکت کرنے کو دعوت دینے پیر جو گوٹھ جاتے ہیں:
جی ایم سید: آپ مسلم لیگ میں شامل کیوں نہیں ہو جاتے؟
پیر پگاڑو(مسکراتے ہوئے): کس لیے؟
جی ایم سید: کیوں کہ ہم آزادی 1940 کی قرارداد کے مطابق حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
پیر پگاڑو (ہنستے ہوئے): مسلم لیگ آزاد ملک حاصل کرے گی۔ ناممکن! شاہ صاحب! میں نے سمجھا تھا کہ آپ ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہوں گے لیکن آج پتہ چلا کہ آپ تو سیاست کی ’س‘ سے بھی واقف نہیں!
جی ایم سید (مذاقاً): لیکن آپ نے تو شاید سیاست کی ’الف بے‘ مختلف جیلوں میں رہ کر سیکھی ہے۔
پیر پگاڑو: ہم ایسے دعوٰی نہیں کرتے لیکن وہ پارٹی جس کی صفوں میں سر اور خان بہادر ہوں، انگریزوں سے کبھی آزادی نہیں لے سکتی۔
جی ایم سید: ’دیکھیے گا ہم سندھ اسمبلی سے پاکستان کی قرارداد منظور کروا لیں گے۔ ہم برطانیہ کو اپنے آزاد وطن میں مداخلت نہیں کرنے دیں گے۔‘
پیر پگاڑو: لیکن آپ تب ہوں گے کہاں! آپ بڑی مشکلات میں ہوں گے اور مجھے شک ہے کہ آپ جیل میں نہ ہوں۔"
اور پاکستان بننے کے بعد سے ایک سال سے بھی کم عرصے میں جون 1948 کو جی ایم سید کو نظربند کر دیا گیا اور اپنی ہی تخلیق پاکستان میں زندگی کا زیادہ تر حصہ تا دم مرگ جیل اور نظربندیوں میں گزار گئے۔ کوئی حیرت نہیں کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ سرفراز میمن جی ایم سید کے گاؤں سن کی نسبت سے میر سلیم سنائی کہلانے لگا۔ میر اسے اس کی ماں کہا کرتی تھی۔ میر سلیم سنائی۔ جی ایم سید کے بعد وہ سندھ کا بہت بڑا عاشق تھا۔ درمے دامنے سخنے۔ سندھ کے نام پر بہت سارے اس جلاوطن شخص لیکن میمن بچے کو ٹھگ گئے اور اسے دیوالیہ کی حد تک پہنچا گئے۔
اس نے سن میں ہی دفن ہونے کی وصیت بھی کی تھی۔
تو ذخیرہ اندوزوں اور مخیروں کی کمیونٹی کی بیوفا اولاد کے شہر ڈیپلو میں وہ نچلے متوسط طبقے کے خاندان میں پیدا ہوا تھا۔ سرفراز میمن کے والدین ڈیپلو سے ٹنڈو اللہ یار میں جا کر آباد ہو گئے تھے۔ ٹنڈو اللہ یار میں اس کی دوستی اس کے پڑوسی نوجوان نذیر عباسی سے ہوئی۔ نذیر عباسی اور سرفراز میمن دونوں کا تعلق غریب خاندانوں سے تھا اور نذیر عباسی غریبوں کے حالات میں انقلاب کے ذریعے تبدیلی لانے کے خواب دیکھا کرتا تھا۔ شاید وہ کالج میں تھا اور سرفراز ہائی اسکول میں۔ نذیر عباسی سندھ آزاد ماروئڑا اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور اس کے بعد جام ساقی کی سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں سرگرم تھا۔ دن کو کالج اور رات کو چونگی منشی کی نوکری کیا کرتا۔ نذیر عباسی کی باتیں اور اس کی شخصیت سرفراز کو لڑ گئے تھے۔
ایک دن سرفراز کو نذیر عباسی نے بتایا کہ میرپور خاص میں کسانوں اور طلبہ کا ایک جلسہ ہو رہا ہے اور اس میں خطاب کرنے کیلئے جام ساقی بھی آرہا ہے۔ سرفراز گھر سے پانچ روپے چرا کر گھر والوں کو بتائے بغیر جام ساقی اور کسانوں اور طلبہ کے جلسے میں شریک ہونے کو بس میں بیٹھ کر میرپور خاص جا پہنچا تھا۔ جلسہ شام گئے تک جاری رہنے سے اس کی ٹنڈو اللہ یار گھر واپس آنے کو شام کی آخری بس کب کی نکل چکی تھی اور جلسہ بھی کب کا ختم ہو چکا تھا۔ یہ شرمیلا لڑکا اب کدھر جائے؟ وہ میرپور خاص شہر سے بہتے نالے کے قریب چھپ کر سو گیا۔ جب دوسرے دن گھر پہنچا تو والد نے اس کی خوب پٹائی کی تھی۔
سرفراز میمن کے میٹرک پاس کرنے تک اس کا خاندان حیدرآباد نقل مکانی کر گیا تھا جہاں انہوں نے اللہ داد چنڈ یا گڈز ناکہ محلے پکے قلعے کے نیچے جا کر سکونت اختیار کی تھی۔ حیدرآباد شہر نے اس پری وِش کی سیاسی پرورش کی۔ یہ انیس سو ستر کی دہائی تھی۔ حیدرآباد سندھی ادب اور سندھ کی سیاست کا مرکز تھا۔ سندھ یونیورسٹی جامشورو سندھ کی قوم پرست طلبہ سیاست، حیدر آباد شہر کی مزدور تحریک اور بھٹو کی حزب مخالف تحریک کا مرکز تھا۔ اس کے دل گاڑی کھاتہ میں ایک طرف سندھ ہاری کمیٹی کے اور سندھ کے عظیم لیڈر بابائے سندھ حیدر بخش جتوئی کا ہاری حقدار مرکز اور رہاش گاہ تھے تو دوسری طرف ٹریڈ یونین اور سندھ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے محمود چیمبرس میں دفاتر، رسول بخش پلیجو کا دفتر، اور گل شاہ بخاری روڈ کھوکھر محلے کے قریب نیشنل عوامی پارٹی کا دفتر جہاں سید باقر علی شاہ جیسے نفیس و عظیم انسان ہول ٹائمر تھے اور اسی دفتر میں رہائش رکھتے تھے۔ یہ تو سرفراز کلیے جو کہتے ہیں نہ ایسا تھا کہ بچہ ٹافیوں کی دکان میں آ جائے۔
یہ سیاسی بچہ اب بلوغت کی منزلیں طے کر رہا تھا۔ گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔ لیکن مزدور بستیوں اور حیدر آباد کے محلوں اور ملوں میں جلسوں جلوسوں اور بھوک ہڑتالوں میں سرگرم ہو گیا۔ کبھی دیکھو تو امریکن کوارٹرز کے مزدوروں کے ساتھ، تو کبھی کالی روڈ اور پکے قلعے پر چوڑی مزدوروں کیساتھ، تو کبھی کافکاٹ اور فتح ٹیکسٹائل مل کے مزدوروں، کبھی ٹنڈو میر محمود میں میر برادران خاص طور پر میر رسول بخش تالپور کی کچہریوں یا مجلسوں میں، تو کبھی سچل سرمست اور گورنمنٹ کالج کالی موری میں طلبہ اور حیدر چوک پر مزدوروں کسانوں کے جلسے جلوسوں میں، تو کبھی جلسوں پر دھاوا بولتی پولیس کی لاٹھیوں اور آنسو گیس کے بیچ آنکھ مچولی کھیلتے تو کبھی "خفیہ" پمفلٹ اور پلندے قمیص اور کوٹ کے نیچے چھپائے جنہیں آج تک پاکستانی حکومتیں "تخریبی مواد" کہتی آئی ہیں تو کبھی شہر بھر کی دیواریں نعروں سے کالی کرتے پولیس سے مڈبھیڑ ہو جاتی اور "کامریڈ بھاگو"۔ یہ تھا سرفراز میمن جسے میرا مرحوم لیکن جیالا ماموں کہتا تھا "بھاگتی ٹرین کے پیچھے"۔
جام ساقی، میر تھیبو، نذیر عباسی، سہیل سانگی، جبار خٹک، زاہد مخدوم، محسن زیدی، تنویر شیخ، آصفہ رضوی، رفیق کھوسو، صالح بلو، امداد چانڈیو، نر نجن، امر لال، گھنشیام پرکاش، تاج مری، غلام رسول سہتو، غلام حسین شر، غلام قادر میرانی یا منصور میرانی، مزدور رہنما اور تحریک کے کارکن محبوب، اشفاق پیارے، زمان، قادر ڈیتھو، انور پیرزادو، لطف پیرزادو اور بلہڑیجی کے اس وقت کے تمام پیرزادگان، اعزاز نذیر، شمیم واسطی، حمیدہ گھانگھرو اور تمام گھانگھرو فیملی، عارف پاشا، فیض سومرو، شاکر شاہ، عاشق سومرو، سرور سیف، گھنشیام راجانی، صفت رند، قاسم بروہی، خیر محمد جونو، سیف بنوی، امیرالدین قریشی، محمد خان سولنگی، شیر محمد منگریو، نور احمد چنڑ، سندھ سے باہر باسط میر، افراسیاب خٹک، اجمل خٹک اس کی نظریاتی فیملی تھی۔ (یہ اور بات ہے سوشل میڈیا محبت کی قینچی نکلی۔ پچھلے کئی سالوں سے ان میں سے کچھ نے اسے بعد میں بلاک بھی کیا یا کچھ کو اس نے خود بلاک کیا)۔
سرفراز نے سندھ یونیورسٹی جامشورو میں داخلہ لیا اور سندھ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن یا ایس این ایس ایف کو منظم کرنے لگا جس کا وہ مرکزی پریس سکرٹری بھی بنا۔ انہی دنوں میں نذیر عباسی بھی سندھ یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ میری سرفراز سے ملاقات انہی انیس سو ستر کی دہائی کے وسطی سالوں میں انٹرنیشنل ہاسٹل میں ہوئی تھی جو جلد ہی یاری میں بدل گئی۔ مگر وہ ہمیشہ بھاگم دوڑ میں اور ایکسائیٹڈ رہتا تھا جیسے انقلاب کسی بھی وقت آ سکتا ہے، جامشورو پھاٹک پر کھڑا ہے بس چنگی چھڑانے کی دیر ہے۔ سرفراز کی جئے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن والوں، جن کا جامشورو کے سب ہی کیمپسز سمیت سندھ کے تعلیمی ادروں (سوائے کراچی کے) میں زیادہ تر تسلط تھا، سے کبھی گاڑھی چھنتی تو کبھی بحث و تکرار کی جھڑپیں ہوا کرتیں۔ اس وقت بھی جئے سندھ کی صف اوّل کی لیڈرشپ کے گھونسوں لاتوں کا نشانہ سرفراز ہی بنا تھا جب جئے سندھ والوں کے کنونشن کے جلسے میں نذیر عباسی پر ان کے ہاتھوں تشدد ہوا تھا جب اس نے ہر وار اوچھا ترچھا نذیر عباسی پر اپنے اوپر سہا تھا۔ جئے سندھ کے اب اس پر پچھتانے والے ایک سابق طالب علم رہنما کا کہنا ہے کہ اپنے ہر حال مست نذیر عباسی کی مسکینی کا یہ عالم تھا کہ اس کی پتلون میں کمر کے گرد بیلٹ کی جگہ ازار بند بندھا تھا۔
لیکن جی ایم سید پر سن میں ایک راولپنڈی سے چلے سابق فوجی گلستان خان کے ہاتھوں حملے کی خبر ہو کہ پیپلز گرلز میڈیکل کالج نوابشاہ کی طالبہ شیریں سومرو کیساتھ ایک فوجی میجر کفایت کے ہاتھوں ریپ کی جھوٹی خبر یا افواہ ہو، سرفراز جئے سندھ والوں اور عام طلبہ کے شانہ بشانہ ہوا کرتا تھا۔ وہ دو بار طویل مدتوں کیلئے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران بدنام زمانہ ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت جیلوں میں بھی رہا تھا۔
پھر اس طرح کی ہونی جو کبھی وقوع پذیر ہوئی ہی نہیں تھی یعنی کہ شیریں سومرو کا نام نہاد واقعہ جس پر سندھ یونیورسٹی کے طلبہ انتہائی مشتعل ہو کر سپر ہائی وے پر احتجاجی جلوس کی صورت میں نکل آئے تھے۔ پورے سندھ میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ جامشورو ریلوے پھاٹک کے قریب جامشورو پولیس اسٹیشن پر حملہ ہوا، اسلحہ لوٹا گیا، تھانے کی عمارت کو آگ لگا دی گئی، فوج کی گاڑی پر حملہ ہوا جس میں دو رنگروٹ فوجی جوان مارے گئے۔ یہ سب کچھ محض افواہوں کی بنیاد پر ہوا۔ نتیجتاً بہت سے بے گناہ طلبہ گرفتار ہوئے۔ سندھ یونیورسٹی جامشورو کیمپسز دو سال سے زائد عرصے تک بند رہے۔ جامشورو پھاٹک پر فوجی جوانوں کی ہلاکت، تھانے پر حملے، اسلحہ لوٹنے اور آتشزنی کے کیسز سرفراز میمن، علی حیدر شاہ، قادر جتوئی و دیگران کیخلاف دائر ہوئے۔ سرفراز میمن شیریں سومرو کیس کے بعد پاکستان میں اس وقت کے صوبہ سرحد سے بارڈر پار کرتے ہوئے افغانستان میں داخل ہوا تو افغانستان کی سکیورٹی فورسز نے اسے گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد سرفراز میمن کی کہانی بالکل امرتا پریتم کے ناول "زندگی نامہ" کے اس مرکزی کردار کے جیسی ہے جو کمیونسٹ ہے اور انیس سو چالیس کی دہائی میں روسی انقلاب دیکھنے کے جنون میں پشاور کے راستے افغانستان چلا جاتا ہے۔
سرفراز جب کسی طرح پاکستان کی سرحد پار کر کے افغانستان کے سرحدی محافظوں کے ہاتھوں پکڑا گیا تو اس وقت افغانستان میں حفیظ اللہ امین کی کمیونسٹ حکومت تھی۔ سرفراز نے انہیں بہت کہا کہ وہ خود کمیونسٹ ہے لیکن انہوں نے اس کی ایک نہ مانی اور اسے پاکستانی جاسوس ہونے کے شبے میں گرفتار کرکے پل چرخی جیل بھیج دیا۔ بقول سرفراز کے اس پر پاکستانی جاسوس ہونے کا مقدمہ چلا کر سزائے موت سنا دی گئی اور اس پر عمل ہونا باقی تھا جب ایک رہا ہونے والے ساتھی قیدی کے ذریعے اس نے اپنے ساتھ ہونے والا ماجرا ان وقتوں میں وہاں جلاوطن اپنے دیرینہ رفیق اجمل خٹک کو پیغام کی صورت میں بھیجا۔ اجمل خٹک کی فوری مداخلت پر حفیظ اللہ امین کی حکومت نے سرفراز میمن کی سزا ختم کر کے انہیں رہا کر دیا۔ یہ وہ دن تھے جب اجمل خٹک، افراسیاب خٹک، امام علی نازش، بلوچ قوم پرستوں، سرمہ چاروں اور بھٹو برادران سمیت کئی پاکستانی نژاد سیاسی منحرفین اور جلاوطن ضیا فوجی آمریت سے بھاگتے ہوئے کابل و دیگر شہروں میں آ کر بس گئے تھے۔
کابل میں کچھ عرصہ تک قیام کرنے کے بعد اس وقت کی حکومت کی طرف سے جاری کی گئیں سفری دستاویزات پر بہرحال سرفراز میمن شیر محمد کے نام سے جرمنی پہنچ گیا۔ اس طرح شیر محمد یا سرفراز جنرل ضیا کے جبر سے یورپ میں پاکستانی سیاسی منحرفین کی جلاوطنی میں آنے والوں کی اولین کھیپ میں شامل ہوا۔ جرمنی میں پاکستان سے سیاسی منحرفین اور جلاوطنوں کی ایک بڑی تعداد پہنچی تھی۔ بھٹو کی رہائی، اس کی پھانسی کیخلاف ردعمل، پاکستان میں جمہوریت کی بحالی، اس کے محبوب ساتھی نذیر عباسی کی بریگیڈیئر امتیاز(اس وقت کرنل انچارج آئی ایس آئی) کے ہاتھوں تشدد میں ہلاکت کیخلاف احتجاج، جام ساقی اور حبیب جالب کا استقبالیہ منظم کرنا ہوں، سرفراز ان سب معاملات میں آگے آگے ہوا کرتا تھا۔
پھر یہ انارکسٹ انقلابی گھر بار کا ہو گیا۔ ایک نیک خاتون (ویسے تو ساری خواتین ہی نیک ہوتی ہیں) سے شادی کرلی وہ بھی جلاوطنی میں کسی اور ملک ہوئی۔ کاروبار زندگی بھی سنبھالا۔ اب وہ دبئی، سعودی عرب و مشرق وسطیٰ و یورپ کے ممالک میں خواتین کے پارچہ جات بڑی چین کمپنیوں کو فراہم کرتا۔ لیکن اس کو اس کے کامریڈ دوستوں سرخوں نے بھلا دیا۔ روس ٹوٹ چکا تھا لیکن یہ نہیں ٹوٹا۔ اپنے پرانے کامریڈوں کی بیوفائی اس کے دل میں گولی کی طرح پیوست رہی۔ پر اسے ایک بڑا بے چینی کا کیڑا لگا رہا۔
اب دبئی میں سکونت اختیار کی لیکن اس کے دل کے تار سندھ کی مٹی اور وطن کے صحرا سے جڑے رہے۔ ویسے تو ساری سندھو وادی ہی اس کا وطن تھا۔ اب اس کے پرانے دوستوں نے اسے ایک کاروباری سمجھنا شروع کر دیا۔ نئے دوستوں جو سندھی قوم پرست تھے، ان میں سے کچھ کیلئے یہ ایک "دھر" تھا۔ انہی میں سے کچھ نے اس کے سندھ سے جڑے دل کے تاروں کو ایکسپلائیٹ کیا۔ یہ سندھو وادی کا انسان دوست کل کا کامریڈ اب تنگ نظر قوم پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ وہ سندھی علیحدگی پسند گروپ جو تشدد کا راستہ لیے ہوئے تھا، انہوں نے اسے اور اس کے خلوص اور جلاوطنی میں اپنے وطن اور اس کے لوگوں کی تانگھ (تانگھ کا کوئی ترجمہ نہیں ہو سکتا) کو خوب ایکسپلائیٹ اور استعمال کیا۔ اس نے کئی لوگوں اور جینوئن ضرورت مندوں کی مدد بھی کی۔ کئی سابقہ گمشدہ لوگوں اور ان کے خاندان کے افراد کو محفوظ ممالک میں پہنچایا۔ لندن تھا کہ جنیوا، برلن کہ فرینکفرٹ، وہ گمشدہ سندھی اور بلوچ نوجوانوں کی بازیابی اور رہائی کیلئے بدستور احتجاجی مظاہرے منظم کرتا رہا۔
لیکن انتہا پسند متشدد سیاست میں یقین رکھنے والوں کو بھی بھول پن یا چریا پن میں پناہ دلائی۔ اسے یہ خبر بقول اس کے کہ بہت دیر سے پڑی کہ یہ سب غیر ممالک کی ایجنٹی اور پیسوں کا کھیل ہے جب تک وہ دیوالیہ ہو چکا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ میرے سامنے پیسوں کے سوٹ کیس بھر کر ایسے لوگوں کو دیے گئے ہیں لیکن میں نے کئی پیش کشیں ٹھکرا دی ہیں۔ وہ کہتا تھا، "اگر مجھ پر کسی بھی ملک، پاکستان ہو کہ ہندوستان، کی ایجنٹی میری موت کے بعد بھی ثابت ہو تو میری قبر سے میری لاش نکال کر اس کو گھسیٹنا"۔ لیکن وہ یہ بھی کہتا تھا کہ "مجھے جو بہت کچھ معلوم ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ ایسے لوگوں اور گروپوں کو ایکسپوژ کر کے سندھ کے معصوم نوجوانوں اور ان کے خاندانوں کو مصیبتوں اور بے گناہ قتل ہونے سے بچا سکتا ہوں۔ ان نوجوانوں اور سندھ کی آنے والی نسلوں کو تباہی اور بربادی سے بچانا چاہتا ہوں۔ غائب ہونے اور ٹارچر اور مارے جانے سے بچانا چاہتا ہوں"۔
اس نے ایسے تشدد پسند گروپوں اور افراد کے بارے میں سوشل میڈیا پر لکھا بھی تھا۔ پھر وہ سندھو دیش لبریشن آرمی تھی کہ جسمم شفیع برفت۔ آخری دنوں میں اس کی سوئی الطاف حسین پر اٹک گئی تھی اور اس کی آخری سرگرمی لندن جا کر الطاف حسین سے ملاقات کرنا تھی۔ یعنی کہ میر کتنے سادہ ہیں۔ الطاف حسین کئی گھنٹوں اپنے ٹن پروگرام میں گفتگو شفیع برفت اور میر سلیم سے کرتے جسے وہ "ہیپی آور" کہتے۔ شاید یہ الطاف حسین ہی تھا جس کے کہنے پر ہی پھر برفت اور سرفراز نے صلح کر لی تھی۔ اور کوما میں جانے سے پہلے آخری ملاقات بھی سرفراز نے برفت اور اس کے ساتھی سے کی تھی (جن کو بھی سرفراز نے جرمنی پہنچایا تھا یعنی اپنے لیے ہاتھی کو ہندوستان دکھایا تھا۔ پھر دونوں نے ایک دوسروں کی ماں بہن ایک کی تھی۔ شکایات اور مقدمے جرمن پولیس اور عدالتوں تک پہنچے تھے)۔ اور پھر دوسرے روز اس پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ کوما میں چلا گیا۔ وہ دو ماہ سے زائد کوما میں فرینکفرٹ کے قریبی شہر میں ایک اسپتال میں اور پھر ری ہیبلیٹشن سینٹر میں مشینوں پر سانس لیتا رہا۔ جہاں صرف اس کے تین بیٹے، ایک بیٹی، اہلیہ اور دو ایک چند دوست اس کے ساتھ اور اس کی دیکھ بھال میں رہے۔
اس کی وصیت تھی کہ اس کو سن میں دفنایا جائے لیکن المناک طربیہ یہ ہے کہ سرفراز میر سلیم کے نام سے سن میں دفن نہیں ہو سکتا۔ لیکن سرفراز کی جلاوطنی محبت کی طرح اس کے مرنے کے بعد بھی جاری ہے۔ ایک تصویر میں سرفراز نوابشاہ میں اس استقبالیہ میں اسٹیج پر بیٹھا نظر آتا ہے جو کسان رہنما اور سابق عوامی لیگ کے سابق نائب صدر قاضی فیض محمد کی جلاوطنی سے واپسی پر دیا گیا تھا۔ کس نے جانا تھا کہ ایک روز سرفراز کو بھی جلاوطنی میں جانا پڑے گا اور جلاوطنی میں ہی موت کے بعد اپنے وطن سندھ میں دفن ہونے کیلئے بھی نہیں لوٹ کے آنا نصیب نہیں ہوگا۔
بقول اقبال عظیم:
اے سرو سرفراز ذرا دیکھ کے چلیو
ایک شہر خاموشی تیرے قدموں کے تلے ہے