مونس الٰہی کے خلاف 'اوپن اینڈ شٹ' کیس لاہور کے ایک رکنی بنچ نے کیسے خارج کر دیا - دوسری قسط

مونس الٰہی کے خلاف 'اوپن اینڈ شٹ' کیس لاہور کے ایک رکنی بنچ نے کیسے خارج کر دیا - دوسری قسط
مونس الٰہی کے منی لانڈرنگ کیس میں خود مونس الٰہی کیسے لانڈر ہو کر صاف شفاف ہو گئے؟ لاہور ہائی کورٹ کے ایک رکنی بنچ نے اتنی جلدی فیصلہ کیسے سنا دیا؟ جسٹس اسجد جاوید گھرال کون ہیں؟ کیا گھرال خاندان کا تعلق گجرات سے ہے؟ کیا اس خاندان کا گجرات کے چوہدری خاندان سے بہت قریبی تعلق ہے؟ ان سب باتوں پر کچھ چشم کشا انکشافات پاکستان کے ایک قابل ترین صحافی عمر چیمہ نے کر ڈالے ہیں۔

مونس الٰہی کے منی لانڈرنگ کیس کے حوالے سے ممتاز تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ نے اپنے یوٹیوب پروگرام ٹاک شاک میں تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے سوموار کو بتایا تھا کہ اس کیس میں کس طرح بینکنگ چینلز سے حاصل ہوئے ثبوتوں کے ذریعے کیس درست ثابت ہوتا ہے۔ ان کی رپورٹ سے ایسا لگتا تھا کہ ایف آئی اے کے کیس میں بڑی جان ہے اور اس سے مونس الٰہی کا بچنا محال ہوگا۔ تاہم، منگل کی صبح لاہور ہائی کورٹ کے ایک رکنی بنچ نے اس کیس کو خارج کر دیا اور مسلم لیگ ق کے جواں سال لیڈر ہر طرح کے الزامات سے پاک قرار پائے۔

اس حوالے سے جب پروگرام کی میزبانی کے فرائض انجام دیتے صحافی اعزاز سید نے عمر چیمہ سے منگل کی شام پوچھا کہ آپ کی باتوں سے تو مجھے لگا تھا یہ بڑا سیدھا سیدھا کیس تھا تو پھر یہ فیصلے کیسے ہوا؟ عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ کیس تو سیدھا سیدھا ہی تھا لیکن پاکستان میں معاملات سیدھے نہیں ہوتے۔

اعتراضات کے باوجود محض ایک رکنی بنچ نے فیصلہ سنا دیا؟

جنگ گروپ سے تعلق رکھنے والے سینیئر تحقیقاتی صحافی نے بتایا کہ یہ ایک رکنی بنچ کا فیصلہ تھا اور یہ ایک رکن تھے جسٹس اسجد جاوید گھرال صاحب۔ اب یہ گھرال خاندان کا گجرات سے اور گجرات کے چوہدریوں سے کیا تعلق ہے، یہ انکشاف آگے چل کر۔ کیس کے خارج ہونے کی ٹیکنیکل وجوہات کیا تھیں، پہلے ذرا ان پر آ جائیے۔

عمر چیمہ کے مطابق جج صاحب نے سب سے پہلے تو یہ پوچھا کہ یہاں سب کچھ بینک کے ذریعے ہوا تھا تو شکایت کنندہ بینک کیوں نہیں ہے، ایف آئی اے کیوں ہے؟ انہیں بتایا گیا کہ بینک تو اگر کوئی کلیئر ہوتا اس صورت میں شکایت کرتا۔

دوسرا سوال یہ آیا کہ اس تحقیق کا آغاز شوگر کمیشن سے ہوا تھا جس میں جہانگیر ترین کا بھی نام تھا۔ جج صاحب نے پوچھا کہ ترین صاحب کے خلاف کوئی چالان ہوا ہے یا نہیں۔ اب یوں تو یہ کیس ہونا چاہیے تھا لیکن قانون کی نظر میں یہ کوئی جائز دلیل نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ آپ کوئی جرم کریں اور آپ کو پکڑا جائے تو آپ جواب دیں کہ یہاں تو 302 کے مجرم بھی پھر رہے ہیں۔ اس سے آپ کے کیس پر کوئی فرق نہیں پڑتا، آپ کا جرم اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔ لیکن لگتا ایسا ہے کہ شاید جج صاحب کے نزدیک اس کیس کو سیاسی مقاصد کی خاطر اچھالا جا رہا تھا۔



یہ بھی پڑھیے: پاکستان کا سٹیو جابز، مونس الٰہی، بھٹیوں کی فوج اور ‘عجب کرپشن کی غضب کہانی’







تیسرا سوال تھا کہ اس میں قومی خزانے کو کوئی نقصان پہنچا؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنی پوزیشن کو استعمال کرتے ہوئے آپ کوئی ناجائز کام کریں تو قومی خزانے کا نقصان کیا ہوتا ہے، اسے واضح طور پر ثابت کرنا ایک پیچیدہ معاملہ ہوتا ہے اور یہ سوال ویسے بھی اس وقت سامنے آتا ہے جب تحقیقات شروع ہو جاتی ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ منی لانڈرنگ کے کیس کے لئے ضروری نہیں ہے کہ سرکاری خزانے کا نقصان ہوا ہو، جب کہ یہاں کیس ہی منی لانڈرنگ کا تھا۔

اس موقع پر وفاق کے وکیل نے بنچ کی تشکیل پر سوال بھی اٹھایا کہ یہ ایک رکنی بنچ کیسے اس کیس کو سن سکتا ہے، اس پر تو ڈویژنل بنچ ہونا چاہیے لیکن اس کی استدعا کو ایک رکنی بنچ نے مسترد کر دیا۔ یوں کیس خارج ہو گیا۔ تاہم، اصل سوال تو اس سے ہٹ کر ہیں۔

گجرات کا گاؤں گھرال

اب آتے ہیں گجرات کے گاؤں گھرال کی طرف۔ عمر چیمہ کے مطابق جج صاحب گجرات ہی سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا خاندان ق لیگ میں ہے۔ یہ خاندان سر سے لے کر پاؤں تک ق لیگ میں ہے۔ جسٹس اسجد جاوید گھرال کے ایک کزن ہیں جو ق لیگ کے ایم پی اے بھی رہے ہیں۔ ان کا نام ہے خالد اصغر گھرال۔ جج صاحب کے اپنے بھائی ق لیگ برطانیہ کے صدر ہیں۔ ان کا نام ہے احسن گھرال۔ ان کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ دیکھیں تو پتہ نہیں چلتا کہ یہ ق لیگ کے ہیں یا پی ٹی آئی کے۔



ایک اور حیرت انگیز انکشاف عمر چیمہ نے یہ کیا کہ 2020 میں چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی کی جانب سے نیب کے ایک کیس میں ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی۔ اس کیس میں ایک بنچ بنا، پھر ٹوٹ گیا۔ ایک اور بنچ بنا، یہ بھی ٹوٹ گیا۔ جو بھی جج آتا وہ کہتا کہ میں تو ماضی میں ان کا وکیل رہا ہوں لہٰذا یہاں مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے۔ جسٹس اسجد جاوید گھرال صاحب نے بھی خود کو ایک بنچ سے علیحدہ کر لیا تھا اور یہاں تعلق بیان کیے بغیر انہوں نے کہا کہ وہ ذاتی وجوہات کی بنا پر یہ کیس نہیں سن سکتے۔ اوپر بیان کیے گئے حقائق کہ روشنی میں یہ واضح ہے کہ وہ 'ذاتی وجوہات' کیا تھیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جسٹس گھرال صاحب کا 2020 میں خود کو بنچ سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ درست تھا یا اب مونس الٰہی کا کیس سن کر اسے خارج کر دینے کا۔

یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ 2021 میں شہباز شریف کے منی لانڈرنگ کیس کے بنچ میں جسٹس اسجد جاوید گھرال صاحب ہی موجود تھے۔ ان کے علاوہ جسٹس ڈوگر بھی تھے جو اس بنچ کی صدارت کر رہے تھے۔ جسٹس ڈوگر نے تو شہباز شریف کی ضمانت منظور کر لی لیکن اگلے دن جسٹس گھرال نے ایک اختلافی نوٹ لکھ دیا اور کہا کہ اس کیس میں بہت عجلت دکھائی گئی ہے اور وہ اس ضمانت کے فیصلے سے متفق نہیں۔ گو کہ شہباز شریف کو ریفری بنچ نے ضمانت پر بالآخر رہا کر دیا تھا۔ وہ بھی منی لانڈرنگ کیس تھا، مگر وہاں جسٹس گھرال نے ضمانت پر رہائی نہیں دی تھی۔

جسٹس اسجد جاوید گھرال پر مبنی ایک رکنی بنچ بنا کیسے؟

عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ جج حضرات کو یہ سوچنا چاہیے کہ ان پر اٹھنے والے سوالات ہمارے نظامِ انصاف پر لوگوں کو انگلیاں اٹھانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر لاہور کے چیف جسٹس کے داماد علی ساہی پاکستان تحریکِ انصاف سے تعلق رکھتے ہیں اور حال ہی میں 17 جولائی کو یہ فیصلہ آباد سے ضمنی الیکشن جیتے بھی ہیں۔ فیصل آباد سے جب یہ الیکشن لڑے تو باقی سیٹوں پر کسی کا کوئی بھی تجزیہ ہو، اس سیٹ پر سب کو یقین تھا کہ پی ٹی آئی جیتے گی۔ کوئی پوچھتا کیوں تو بتایا جاتا کہ اس کا امیدوار پنجاب کے چیف جسٹس کا داماد ہے۔ اعزاز سید نے اس موقع پر یاد دہانی کروائی کہ اس ضمنی الیکشن کے دوران خود چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بھی فیصل آباد کافی آتے جاتے رہے تھے۔ عمر چیمہ کے مطابق اب علی ساہی پنجاب کے ایک طاقتور وزیر ہیں، ان کے پاس کمیونکیشن اینڈ ورکس کی وزارت ہے۔ چند روز قبل انہوں نے جج صاحبان کا ایک ڈنر بھی کیا ہے اور اس میں کافی جج حضرات نے شرکت کی۔

سینیئر صحافی کا کہنا تھا کہ اقدار کا تقاضا ہے کہ ججز کو ایسی چیزوں کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ جس سے ان پر سوالات اٹھتے ہوں۔ کیونکہ آخر کسی نے بنچ تشکیل بھی تو دیا نا۔ یہ اختیار تو چیف جسٹس کا ہی ہے۔ جسٹس گھرال کا بنچ بھی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ہی بنایا۔

اعزاز سید کے اس سوال پر کہ کیا ہمارا بنچ تشکیل دینے کا معاملہ کمپیوٹرائزڈ نہیں کیا جا سکتا، عمر چیمہ نے بتایا کہ چند برس قبل Access to Justice پروگرام کے تحت یہ مدعا اٹھایا گیا تھا لیکن جب ایک چیف جسٹس صاحب سے ملاقات میں اس پروگرام کے ایک رکن نے مشورہ دیا کہ بنچ کی تشکیل کا نظام کمپیٹرائزڈ کر لیں تو چیف صاحب نے جواب دیا، 'ہمیں پھر چیف جسٹس بننے کا کیا فائدہ جب ہم بنچ بھی نہیں بنا سکتے؟'