(ندیم فاروق پراچہ)
جب 1960 ء اور 1970 ء کی دہائیوں میں ’’آزادئ نسواں ‘‘ کا تصور(مغرب میں) جڑ پکڑنے لگا تو پاکستان کے شہری علاقوں کی کئی ایک خواتین نے بھی اس تحریک کے تصور اور نعرے کو اپنا تی دکھائی دیں۔ اُن میں سے کچھ خواتین نے مختلف تنظیمیں قائم کیں جنہوں نے اُن قوانین کو براہِ راست چیلنج کرنا شروع کردیا جو (اُن کے نزدیک) خواتین مخالف تھے ۔ یہ قوانین فوجی آمر، جنرل ضیاالحق کے دور میں بنائے گئے تھے ۔ تاہم پاکستان میں نسائیت کا پہلا علم بردار دراصل ایک آدمی تھا۔ وہ مشہور مزاحیہ اداکار اور ہدایت کار، رنگیلا تھے ۔ اُنھوں نے ’’آزادئ نسواں تحریک ‘‘ کے تصورات اور افکار کو سلور سکرین پر بھرپور طریقے سے پیش کیا۔ وہ ایسا کرنے والے پہلے پاکستانی فلم ساز تھے۔ اُنھوں نے بھاری بجٹ سے تیار کردہ ایک فلم ’’عورت راج‘‘ کے ذریعے ایسا کیا۔ اس فلم کے ہدایت کار اور پروڈیوسر وہ خود ہی تھے،اور اس میں بطور اداکار بھی اُنھوں نے کام کیا تھا۔ یہ فلم 1979 ء کو ریلیز کی گئی۔ اگرچہ پاکستانی فلمی صنعت کی ترقی کا زمانہ تھا، اور ملک کے شہروں اور قصبوں میں سینکڑوں سینما رش لے رہے تھے، لیکن یہ فلم باکس آفس پرہٹ نہ ہوسکی۔ ’’عورت راج‘‘ اپنے وقت سے آگے کے تصورات پر مبنی تھی۔ پاکستانی سینما اُن تصورات کی سہار نہیں رکھتا تھا۔ اور پھر رنگیلا کو اس فلم کے کئی ایک ،اور دلچسپ ، تصورات کو ایڈٹ کرنا پڑاتھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فلم کی ریلیز کے وقت ملک پر رجعت پسند آمریت مسلط ہوچکی تھی۔ بہرحال رنگیلا نے نہ صرف فلم مکمل کی بلکہ تقسیم کاروں کو ملک بھر کے سینماؤں میں اس کی نمائش کے لیے بھی تیارکرلیا۔
1970 ء کی دہائی میں بننے والی کئی ایک پاکستانی فلموں نے آزادئ نسواں کے تصورات کو احمقانہ قرار دے کر اُن کا مذاق بھی اُڑایا۔ تاہم رنگیلا نے اس تحریک کو تضحیک کا نشانہ بنانے والوں کو آڑھے ہاتھوں لیا۔ رنگیلا کا تعلق کسی تعلیم یافتہ یا لبرل خاندان سے نہیں تھا ۔ درحقیقت وہ ایک نیم خواندہ انسان تھے ۔ اداکاری کے میدان میں قدم رکھنے سے پہلے بل بورڈز پینٹ کرکے بڑی مشکل سے روزی کماتے تھے ۔ 1960 ء کی دہائی میں وہ ایک مزاحیہ اداکار کے طور پر فلمی دنیا میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ۔ فلم میں پرحماقت حرکتیں اُن کی پہچان بن گئیں۔ اُن کا عجیب جسم، بڑا سر، چھوٹا قد، پتلی ٹانگیں اور منفرد آواز، جو وہ پورا منہ کھول کر ادا کرتے، فلم سازوں کے لیے کافی تھے کہ وہ اُنہیں سنجیدہ مناظر سے بھرپور فلم میں کچھ قہقہے بکھیرنے کے لیے کاسٹ کرلیں ۔
کم درجے کی احمقانہ حرکتوں کی یکسانیت اور فلم سازوں کی طرف سے معمول کے کردار ملنے کی وجہ سے رنگیلا دلبرداشہ ہوگئے ۔ چنانچہ اُنھوں نے اپنی فلم ساز کمپنی قائم کرلی اور خود فلمیں بنانا شروع کردیں۔ اُنھوں نے 1969 ء سے لے کر 1972 ء کے درمیان تین فلمیں پیش کیں، او ر یہ تینوں باکس آفس پر کامیاب رہیں۔ اگرچہ اُنھو ں نے ان فلموں میں مزاحیہ کردار ہی ادا کیے ، لیکن ان کرداروں کو قدرے مرکزی حیثیت دے دی، اور اُنھوں نے خود کو پرسوز آواز رکھنے والے پلے بیک سنگر کے طور پر بھی متعارف کرایا۔ تین کامیاب فلمیں بنانے پر اُن کی کمپنی لاکھوں میں کھیلنے لگی۔ لیکن رنگیلاابھی تک مطمئن نہ تھے ۔ بے چینی تو گویا اُن کی فطرت میں شامل تھی ۔ چنانچہ اُنھوں نے اپنی تمام دولت ایک عظیم منصوبے میں لگانے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ منصوبہ 1956 ء کی ہالی ووڈ کی ایک شاہکار فلم ’’The Hunchback of Notre Dame‘‘کی اردو یا پاکستانی پیش کش تھی۔ خود کو ہنچ بیک کی افسانوی دنیا سمجھنے کی غلطی کرنے والے رنگیلا نے بربادی کو دعوت دی تھی۔ یہاں نہ کوئی انتھونی کوئین تھا اور نہ ہی وکٹر ہوگیو۔ رنگیلا کی کمپنی نے تین برسوں میں جتنے پیسے کمائے، وہ اس رقم فلم پر لگادیے ، اور باکس آفس پر ناکامی اس کی منتظر تھی۔بطور ایک پیشہ ور اداکار اپنا بچاؤ کرنے کے لیے رنگیلا نے پھر وہ وہی حماقتوں بھر مزاحیہ کردار ادا کرنا شروع کردیے ۔ اس دوران اُنہیں ایک فلم، ’’انسان اور گدھا ‘‘میں مرکزی کردار مل گیا۔ اس فلم کے ہدایتکار، سید کمال تھے ،اور یہ ہٹ ہوگئی۔ اس کی وجہ سے رنگیلا ایک مرتبہ پھر شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ ’’انسان اور گدھا ‘‘ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک گدھا خدا سے دعاکررہا ہے کہ وہ اُسے انسان بنا دے۔ جب گدھا انسان کے روپ میں آتا ہے (اور یہ کردار رنگیلا نے ادا کیا ہے) تو اُسے ایسے حالات کاسامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ دوبارہ خدا سے دعا کرتا ہے کہ اُسے گدھا بنا دے ۔انسانی زندگی سے تنگ آنے کے بعد وہ ایک سیاسی جلوس نکالتا ہے، جس میں صرف گدھے شرکت کرتے ہیں۔ وہ ایک مضحکہ خیز تقریر کرتا ہے جس میں انسانوں کی اخلاقی، سماجی اور سیاسی منافقت پر تنقید کی گئی ہے۔ یہاں یہ فلم واضح طور پر مقبول عوامی رہنما اور شعلہ بیان مقرر، ذوالفقار علی بھٹو کا خاکہ اُڑاتی ہے ۔ ایک منظر میں سیاسی رہنماوں کی خطابت کے سحر میں مبتلا ہوجانے والے عوام کوہدف تنقید بنایا گیا ہے ۔ بھٹو حکومت نے فلم پر پابندی لگادی۔ بھٹو انتظامیہ نے تاثرلیا کہ رنگیلاکا گدھے سے انسان بننے والا کردار داصل بھٹو کے تقریر کے انداز کی نقل کرتا ہے۔ اور حقیقت بھی یہی تھی۔ اگرچہ رنگیلا خود بھی بھٹو کے جذباتی حامی تھے، لیکن فلم پر پابندی نے اُن کی عوامی وزیر اعظم سے وابستہ خوش فہمی دور کردی۔ تاہم جلد ہی پابندی اٹھا لی گئی، اور چند ہفتے سینماؤں سے غائب رہنے کے بعد فلم کی نمائش دوبارہ شروع ہوگئی۔ اپنی فلم ساز کمپنی کے دیوالیہ ہونے اور ناکامی کا سامنا کرنے کے باوجود رنگیلا بڑے خوابوں سے دستبردار نہ ہوئے ۔ کسی قدر مالی نقصان پورا ہونے کے بعد اُنھوں نے دوبارہ کمپنی قائم کرلی ۔ 1978 ء میں اُنھوں نے ایک فلم کے پلاٹ پر کام کرنا شروع کردیا جو اُنہیں بطور فلم ساز شہرت کی بلندیوں پر لے کر جاسکتی تھی ۔ اس مرحلے پر اُنہیں کسی نے مشہور پاکستانی ناول نگار، شوکت تھانوی کے ایک تصور کے بارے میں بتایا۔ یہ تصور ایسے معاشروں کے بارے میں تھا جہاں عورتیں راج کرتی ہیں۔ رنگیلا کے لیے یہ ایک پرجوش تصور تھا۔ اُنھوں نے اسے ایک فلم کی صورت پیش کرنے کا منصوبہ بنالیا۔ اُنھوں نے اپنے دور کے کئی ایک مشہور اداکاروں اور اداکاراؤں کو سائن کرلیا۔ یہ 1979 ء کی بات ہے ۔ ایک مرتبہ پھر رنگیلا نے اپنی تمام جمع پونجی اس انوکھے میں فلمی منصوبے میں لگادی۔ فلم دیکھ کر تقسیم کار حیران رہ گئے : یہ فلم مرد کے حاکمیت کے تصور پر تیز و تند تنقید تھی۔ اس میں پاکستانی فلموں کے ہیروز اور ہیرؤینز کا بھی خاکہ اُڑایا گیا تھا۔ صرف یہی نہیں، یہ فلم نسائیت کے تصورات کی کھلی حمایت کررہی تھی ۔ اس جیسی کوئی فلم ملک میں نہیں بنی تھی۔ اس میں ایک بیوی تھی ،جس کا کردار رانی نے ادا کیا تھا۔ اُس کا شوہر ایک دبنگ شخصیت والا سخت گیر آدمی تھا ( یہ کردار وحید مراد نے اداکیا ) ، اور وہ عورتوں کے ساتھ غلاموں کا سا سلوک کرتا تھا۔ آخر کار اُس بیوی نے قدم آگے بڑھا کر آدمیوں کا ہاتھ روکنے کا فیصلہ کرلیا۔ اُس نے علاقے میں عورتوں کی تحریک منظم کرلی۔ یہ تحریک ڈرامائی انداز میں پھیلنا شروع ہوگئی۔ بے شمار عورتوں نے آدمیوں کے تسلط سے رہائی پانا شروع کردی۔ آدمیوں کی گلیوں میں سرعام پٹائی ہونے لگی۔
صورتِ حال اس نہج تک پہنچ گئی کہ حکومت کو مداخلت ، او ر مسلے کا حل تلاش کرنے کے لیے انتخابات کرانا پڑے۔ انتخابات میں ’’عورت راج پارٹی ‘‘ نے بھرپور کامیابی حاصل کی۔ اس طرح ملک کی سیاسی طاقت عورتوں کے ہاتھ آگئی۔ رانی نے ملک کے سربراہ کا عہدہ سنبھالا۔ اُس نے کسی ملک سے ایک خاص بم حاصل کیا۔یہ بم انتہائی مخصوص خوبی کا حامل تھا۔ اس کے پھٹتے ہی تمام آدمی عورتوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ ملک کے تمام اعلیٰ سیاسی اور سماجی عہدوں پر عورتیں فائز ہیں۔ یہ وہ عورتیں تھی جو کبھی مر دکی بالا دستی کا عذاب سہتی تھیں۔ آدمی عورتوں کے کپڑے پہن کروہ تمام کام کاج کرتے جو کبھی عورتوں کے لیے مخصوص سمجھے جاتے ۔ اس سے ایک مضحکہ خیز اور مزاحیہ صورتِ حال جنم لیتی ہے ۔ یہ مرد کی حاکمیت کے تصور ، سماجی جمود اورعورتوں کو مخصوص کاموں کے قابل سمجھنے کے تصورات پر چبھتی ہوئی تنقید تھی ۔ یہ تصورات مرد کی حاکمیت کے معاشرے میں میڈیا نے پھیلائے ہوتے ہیں۔ یہ فلم نہ صرف مناظر بلکہ تصورات کے اعتبار سے چونکا دینے والی تھی، خاص طور پر اُن عشروں کے دوران۔ اور ناظرین کا ردعمل مبہم تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ پھر رنگیلا دیوالیہ ہوگئے ۔ ایک مشہور ٹی وی پروڈیوسر، شیرین پاشا نے اپنے 1990 ء کی دہائی میں لکھے گئے مضامین میں اس بات کا جائزہ لیا کہ 1970 ء کی دہائی کے آخری برسوں میں بننے والی کچھ بہت اچھی فلمیں فلاپ کیوں ہونا شروع ہوگئیں۔ مس پاشا کے مطابق اس کی ایک وجہ ملک کے فلم بین طبقے کے تصورات میں آنے والی تبدیلی تھی ۔عوامی ثقافت کے خدوخال ماند پڑنے لگے، اور ان کی جگہ بنیاد پرستی کی دھند ذہنوں پر چھانے لگی ۔ پاکستانی مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے ناظرین نے سینماؤں کی رخ کرنا موقوف کردیا۔ رومانوی اور سماجی فلمیں فلاپ ہونے لگیں ، جبکہ ایکشن سے بھرپور مناظر پسند کیے جانے لگے۔
چنانچہ یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ اگرچہ سینما جانے والی مڈل کلاس (جس میں خواتین کی بھی خاطر خواہ تعداد تھی) کو عورت راج جیسی فلمیں پسندآنی چاہیے تھیں، لیکن سینماؤں کار خ کرنے والے شائقین کو طاقتور مرد کا کردار ادا کرنے والے سطان راہی اور رومانوی مہم جو وحید مراد پسند تھے۔ لیکن عورت راج میں کیا دیکھا کہ رانی وحید مراد کی ٹھکائی کررہی ہے ،اور سلطان راہی سنہری وگ لگائے ’’مونچھوں والی ساس ‘‘ کا کردار ادا کررہے ہیں۔ جہاں تک رنگیلا کا تعلق ہے تو وہ ہونے والے نقصان کے صدمے سے کبھی نہ نکل سکے ۔ اگرچہ آنے والے عشرے میں وہ مزاحیہ کردار ادا کرتے رہے ہیں لیکن اُنھوں نے دوبارہ خواب دیکھنے کی کوشش نہ کی۔ اُن کا 2005 ء میں جگر کی خرابی کے باعث انتقال ہوگیا۔