کرونا وائرس نے جب سے اس دنیا کو دبوچا ہے یوں لگتا ہے کہ جیسے دنیا کبھی رونق لفظ کو جانتی ہی نہیں تھی۔ ہر طرف خوف ہے ، سراسیمگی ہے اور غیر یقینی نے پنجے گاڑے ہیں۔ کہیں موت رقص کر رہی ہے اور کہیں بیماری کی اذیت کی داستانیں ماحول کو اداس کر رہی ہیں۔ہر انسان پریشان ہے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ چند دنوں کے بعد وہ اس دنیا میں رہے گا بھی یا نہیں؟ اسکے ساتھ رہنے واے اسکے ساتھ خوش ہونے رونے والے اسکے اپنے باقی بچیں گے یا شاید یہ وہ آخری لمحات ہیں جو جلد یادیں کہلائیں گی؟ کچھ عرصے بعد آنے والے جس معاشی بحران کا ذکر ہے اس میں اسکا اور اسکے خاندان کا کیا بنے گا؟کیا زندگی بھرکی جمع پونجی لٹ جائے گی؟ کیا سر پر چھت رہے گی؟ یا روٹی بھی مل پائے گی یا نہیں۔ یوں ہے جیسے زندگی کے قافلے پر رہزن ٹوٹ پڑے ہوں۔ اور اس قافلے کے شرکا ہیں کہ بس یہ سوچ رہے ہیں کہ اب کہ اسکا نمبر یا اب کہ اسکی باری۔۔۔۔ لیکن اس حیران پریشان اور اداس دنیا میں ایک شخص ایسا بھی ہے جو اس ساری صورتحال پر خوش ہے۔ وہ نہ صرف خوش ہے بلکہ اس کی بات اور ہر انداز سے لگتا ہے کہ وہ اس صورتحال پر پرجوش ہے۔ یہ میرا یونیورسٹی کا کلاس فیلو ہے اور آج کل شوقیہ صحافی ہے۔ میرے نزدیک اس وقت کسی انسان کا خوش ہونا بہت ہی تعجب کی بات تھی۔ میں نے اس حوالے سے اس شخص سے بات کی جسے بغیر کسی کانٹ چھانٹ کے آپ تک پہنچا رہا ہوں۔ کیونکہ پرانی علیک سلیک ہے اس لئے گفتگو میں تکلف کم ہی جھلکا۔
س: السلام و علیکم! کیا حال ہیں؟ اپنا تعارف کرادو پڑھنے والوں کے لئے
جواب ۔ وسلام۔ میں بہترین ہوں، مزے میں ہوں! تعارف میرا کیا ہے؟کچھ نہیں بس عاقل نام ہے۔ اور بس کام کرلیتا ہوں۔
سوال : یار تمھارا کوئی کاروبار تو نہیں ہے ماسک یا سینیٹائزر بنانے کا ؟ یا پھر وینٹیلیٹر یا ٹشو بنانے کا؟اتنے خوش جو ہو کرونا کی وبا پر؟
جواب: نہ! کاروبار پر میں لعنت بھیجتا ہوں
سوال : کیوں؟ اس میں کیا ہے ؟
جواب: کیوں تمہیں کیا ہے؟ بس بھیجتا ہوں۔ تمہارا کوئی کاروبار ہے کیا؟
جواب الجواب: نہیں میرا تو نہیں ہے۔
مزید جواب: تے بس فیر ! کام کرو اپنا بھائی ہر چیز میں کیوں گھسنا ہے
سوال: اچھا۔۔۔ یہ بتاو کہ کرونا کی وبا جو پھیلی ہے تم اس پر خوش ہو؟
جواب: او یس! ایک دم مکمل طور پر خوش۔ صرف خوش نہیں بہت مزہ آرہا ہے۔
سوال وہ کیوں؟
جواب بہت ساری وجوہات ہیں۔ لکھتے جاؤ
سوال :ہاں بولو
جواب:
میں نے وباؤں کے بارے کافی پڑھ رکھا ہے۔ طاعون کی وبا جو چودھویں صدی میں پھیلی اور آبایوں کی آبادیاں چاٹ گئی۔ پھر ہیضہ اور ملیریا کی، چکن پاکس اور خسرے کی اور پھر وہ سپینش فلو کی جس نے 10 کروڑ بندے چاٹ لئے! وہ معاشرے تبدیل ہوئے وہاں خونریزی ہوئی، میری بچپن سے عالمی وبا پھوٹتے دیکھنے کی شدید خواہش تھی۔ وہ پوری ہو رہی ہے! اچھا لگ رہا ہے۔
سوال: اچھا تو ۔۔ اور کیا وجہ ہے؟
دوسری وجہ یہ ہے کہ میرے ارد گرد والے لوگ سوچتے نہیں تھے اس لئے مطمئین تھے۔ میں سوچتا تھا ، زندگی اور موت پر ، اس دنیا کی حقیقتوں پر، اس پر کہ کیسے امیری غریبی انسان نے بنائی ہے کیسے استحصالی نظام کو مذہب کی مرہم لگا کر زہر کو تریاق بنا کر مارکیٹ کیا جاتا تھا۔ کیسے ہم معاشرتی نظام کے غلام ہیں۔ ہم بچے کیوں پیدا کر رہے ہیں ہم شادی کیوں کر رہے ہیں ہم مطلب کیسے بناتے ہیں مرنے کے بعد کہاں جاتے ہیں، خدا مذکر ہے یا مونث، جنسی ضرورت بڑی ہے یا طرز معاشرت، وغیر وغیرہ وغیرہ۔۔ یہ سالے نہیں سوچتے تھے۔ اس لئے اپنی طرف سے پرسکون تھے جیسے وہ شخص ہوتا ہے جو کہے کہ بیماری کی تشخیص اس لئے نہیں کرانی کہ اگر بیماری کی تصدیق ہوگئی تو میں اس بیماری کا مریض ہوجاؤں گا۔ اور یہ سب اپنے اس جہل کی معرفت حاصل ہوئے سکون کو ہر وقت مجھ پر جتلانے، اسکی تبلیییغ کرتے تھے۔ اب یہ پریشان ہیں۔ اور اس لئے نہیں پریشان کہ وبا کوئی بہت ہی بڑا مسئلہ ہے صرف اس لئے پریشان ہیں کہ اس وبا نے انہیں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب یہ دماغ بند نہیں رکھ سکتے اور اس لئے جواب ڈھونڈتے ہیں۔ وہ جواب جو انکے دنیا کے بارے میں خیالات، عقیدے اور یقین انکو مہیا نہیں کرسکتے اور نہ اب کر سکیں گے۔ میں اس لئے خوش ہوں اب مجھے سب میرے جیسے لگتے ہیں!
سوال: اچھا! تو اسکے علاوہ اور کیا وجہ ہے تمہاری خوشی کی۔
جواب :
اور یہ کہ دنیا کی رفتار میرے نزدیک بے ہودہ حد تک بڑھ چکی تھی۔ مشینوں کی طرح بھاگے جا رہے ہیں کام کر رہے ہیں، کرتے ہی جا رہے ہیں۔ اپنے گھر میں بچے کیا کر رہے ہیں کوئی پتہ نہیں بیوی کے ساتھ ٹائم بس اتنا ہی گزارنا ہے جتنا بچہ پیدا کرنے کا عمل شروع کرنے کے لئے کافی ہے۔ ابے بھائی کہاں جا رہے کدھر آرہے ہو کیوں کر رہے ہو؟ بیٹھو، سانس لو ، سانس لینے دو لیکن نہیں۔ مجھے کہتے تھے تم ایک آلسی آدمی ہو جو کام سے بھاگتا ہے۔ میں نے کئی بار سمجھایا تھا کہ میں کام سے نہیں بھاگتا ہاں کام کے لئے نہیں بھاگتا۔ پر نہیں سمجھ آتا تھا۔ اب بلگیٹس کے بچےسب بیٹھے ہیں سکون سے۔ عرصے بعد آنکھیں کھلی ہیں کہ اوئے میرے گھر میں یہ یہ لوگ اور بھی رہتے ہین؟ میں اپنی بات کروں تو اب وقت کی لگامیں میرے ہاتھ میں ہیں اور یہ بہت اچھا ہے۔
سوال: تو یار یہ دنیا تو خالی نہیں ہوگئی ؟ ویرانی ہی ویرانی ہے ؟ دنیا ایسی تو نہیں تھی؟
بھائی دنیا ایسی ہی تھی، تم لوگوں کے شغل ختم ہوگئے ہیں۔ دنیا کو دیکھو ہر چیز ادھر ہی ہے آسمان زمین پہاڑ ندیاں دریا سمندر سب ۔۔۔ غائب انسان ہوا ہے نا۔ تو دنیا کی ویرانی کی نوحہ خوانی مت کرو! میں پہلے بھی تنہائی پسند تھا۔ مجھے رش سے خوف آتا تھا۔ خوشی اور رونق دنیا کی بتائی ہوئی نہیں ہوتی ۔ بلکہ یہ اندر سے پھوٹنی چاہییں۔ سو مجھے ہجوم کی تعریف کردہ خوشیاں کبھی خوشیاں نہیں لگیں۔ یہی وجہ ہے کہ میرے لئے کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ بلکہ سب کچھ میرے مطابق ہوچکا ہے۔
دیکھو یار ، کئی لوگ اپنے شادیوں کے اپنے دیگر زندگی کے فنکشنز ملتوی کر چکے ہیں، کتنا کچھ سوچ رکھا تھا انہوں نے؟ وہ نقصان کس کھاتے ہوگا؟
نہیں وہ انکی ضد ہے جس کی وجہ سے نقصان ہے۔ کیوں کہ دیکھو مثال کے طور پر شادی کی تقریب لے لو ۔ وہ اس چیز پر ضد کررہے ہیں جس کا شادی سے تعلق نہیں۔ رسومات، نکاح نامے دستاویزات وغیر وغیرہ سب معاشرتی ایجاد ہے۔ یہ چھوڑے جا سکتے ہیں زیادہ تکلیف ہے تو 4 لوگ ایک کاٖغذ پر کگھی ماریں اور دو لوگ زندگی ساتھ گزاریں۔ کیا پتہ پھر زندگی ہو نہ ہو! لیکن جن کو ضد ہے کہ وہ معاشرتی طور پر تخلیق کردہ مکمل تقریب میں ہی ایک قدرتی عمل سر انجام دیں گے تو وہی ہیں جو اب بھی نہیں سمجھے۔ روندے جائیں گے۔ ویسے انہوں نے عام حالات میں بھی زندگیاں معاشرتی طور پر لاگو سٹینڈرڈز کو پورا کرتے کرتے گزارنی تھیں ۔ مجھے کوئی ہمدردی نہیں ان سے۔ میں یہی سب کو چیخ چیخ کر سمجھاتا تھا۔ تب ہنستے تھے، لمبے لمبے سانس لیتے اور بے زاری ظاہر کرتے تھے۔ اب مجبوری میں کریں گے۔ میں خوش ہوں
تو یار یہ وبا تو غریبوں پر ٹوٹ پڑے گی؟ یہ انسانی المیہ ہوگا ۔ اس کا کوئی دکھ نہیں ہوگا تمہیں؟
ہاں صحیح کہہ رہے ہو! لیکن اس وبا کے اندر مختلف یہ ہے کہ یہ کہیں بھی پہنچ جاتی ہے اور بڑے بڑوں کی دڑکی لگوا دیتی ہے۔ بادشاہوں سے لے کر آرمی چیف اور وزرائے اعظم تک۔ سب ناچ رہے ہیں سالے! غریب نے تو پہلے بھی مرنا ہی تھا۔ وہ اب بھی مرے گا۔ لیکن اس بار رگڑا امیروں کو بھی بہت لگے گا۔ حکومتیں لڑ کھڑائیں گی۔ اس موقعے پر عوام دیکھیں گے کہ کون ان کے ساتھ ہے اور کون انکے خلاف۔ سب بے نقاب ہوں گے۔ یہ ایک طرح سے دنیا کے سو کالڈ سسٹم کو ننگا کر رہا ہے۔ اور مجھے بہت خوشی ہے
تو فرض کیجیئے کہ جناب کا مفروضہ ٹھیک بھی ہو تب بھی امیر تو آسان موت ہی مریں گے؟
ہاں ایسے ہی ہے۔ لیکن اس سے دنیا کے اندر پریشان دماغوں پر سے جہل کے پردے اتریں گے۔ انہیں صاف نظر آئے گا کہ جن روحانی قووتوں کے آسرے کا ان سے وعدہ تھا وہ تو غائب ہے۔ ہاں البتہ امیروں کو موت بھی آسرے والی نصیب ہو رہی ہے۔ ایسے میں مذہب سے لے کر معاشرت، معیشت اور قانون سب کے بارے میں نئے تصورات جنم لیں گے، کئیوں کی دوکانداری بند ہوگی۔ استحصالی سیٹھوں کو زوال آئے گا۔ پرانے نظام ہل جائیں گے ۔ ہر عالمی وبا پر ایسا ہی ہوا۔ مزہ آئے گا
تو بھائی مر تو تم بھی سکتے ہو؟ خوف نہیں آتا؟
جواب : مرنے کے بارے میں، میں روز سوچتا تھا۔ یہاں تک کے عام حالات میں بھی تو اب ویسے بھی ڈر نہیں لگتا۔ کیوں کہ معلوم ہے کہ اگر ادھر سے بچ بھی گیا تو مرنا تو ہے ہی۔ اس سے نہیں تو کہیں اور۔ ہاں افسوس ضرور ہوتا ہے تاہم وہ بھی لمحاتی۔ مجھے معلوم ہے کہ ٹینشن نہیں لینی۔ نہ اتنی امید نہ ہی نقصان کا زیادہ احساس۔
لیکن میں خوش ہوں۔ یہ تاریخی لمحات ہیں، جو تبدیل ہوگا وہ بچے گا جو نہیں وہ مارا جائے گا۔ اسکے بعد بھی جو بچ گیا اسے نئے سرے سے زندگی کی تعریف کرنی ہوگی۔ اور نئے سرے سے زندگی کی یہ تعریف کا عمل میرے لئے سنسنی خیر ہے۔
سوال : تو ۔۔
جواب : تو وہ کچھ نہیں! اب کچھ دیر خاموشی! سورج ڈھل رہا ہے اور میں اس منظر کو بغیر کسی خلل کے اینجوائے کرنا چاہتا ہوں۔ ویسے بھی عرصے بعد دنیا مجھے میرے مطابق لگی ہے ۔۔ یہ کرسی سامنے سے ہٹا لو۔ بسکٹ کھاؤ اور منظر دیکھو۔
اسکے بعد خاموشی ، سرسراتی ہوا اور ڈوبتے سورج کی پیلاہٹ میں ڈوبا ماحول۔۔