کراچی والے جرائم پیشہ عناصر کے رحم و کرم پر ہیں: ریاست مدینہ کے دعویداروں کو خبر کرے کوئی!

کراچی والے جرائم پیشہ عناصر کے رحم و کرم پر ہیں: ریاست مدینہ کے دعویداروں کو خبر کرے کوئی!
سال ہا سال سے کراچی ٹارگٹ کلنگز کی وجہ سے بدامنی کا شکار رہا ہے۔ اب اتنے سالوں بعد شہریوں اور فورسز کی قربانیوں کے بعد یہاں امن قائم ہوا ہے مگر اب بھی پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی بہت سے مسائل کا شکار ہے۔  یہ حل طلب مسائل روزبروز بڑھتے ہی جا رہے ہیں ایک مسئلہ سے کوئی شہری بچ جائے تو دوسرے مسائل اسے گھیر لیتے ہیں پینے کے پانی کا مسئلہ،ٹرانسپورٹ کا مسئلہ، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر،ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، اور کچھ نہیں تو سگ گزیدگی کے واقعات۔۔ان سب مسائل کے علاوہ اسٹریٹ کرائمز ایک ایسا مسئلہ ہے۔ جس کی زد میں کراچی والے سالوں سے ہیں اور آگے کئی سال تک اس سے چھٹکارے کی امید نظر نہیں آتی۔ کراچی کے شہری مکمل طور پہ چوروں ڈاکوؤں کے رحم و کرم پہ ہیں۔ سینکڑوں شہری روزانہ ان ڈاکوؤں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ہمیں ان سے بچانے والا کوئی نہیں ہے جن کا یہ کام ہے انہیں بھی اس سے اپنا "حصہ" ملتا ہے لہذا وہ کیوں ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے لگے۔

سندھ پولیس کے اعداد وشمار اور میڈیا رپورٹس کے مطابق ستمبر 2020 سے دسمبر 2020 یعنی صرف چار ماہ میں شہری 650 گاڑیوں، 15 ہزار موٹر سائیکلوں اور 8 ہزار سے زائد موبائل فونز سے محروم ہو چکے ہیں۔گذشتہ 5 سال میں 286 افراد ڈکیتی کی وارداتوں میں قتل اور 2204 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ صرف اسی سال کے تین ماہ میں اب تک 12 افراد ڈکیتی مزاحمت پہ قتل اور 80 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔کیا شہر کراچی کے لوگ دن رات محنت اس لئے کرتے ہیں کہ دو چار لوگ آئیں اور سر پہ بندوق تان کر کہیں کہ "جو کچھ ہے ہمارے حوالے کر دو" اور اگر کوئی ذرا سی مزاحمت کرے تو فوراً گولی مار کر چلتے بنیں۔ آخر یہ سب کب تک چلتا رہے گا؟

اس ساری صورتحال میں جو بات سب سے زیادہ تشویشناک ہے وہ یہ کہ بہت سے شہری اپنے ساتھ ہونے والے چوری ڈکیتی کے واقعات کو رپورٹ ہی نہیں کرواتے۔اسی بات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شہریوں کو "محافظوں" پہ کتنا اعتماد ہے۔ اسٹریٹ کرائمز کا خاتمہ جب تک نہیں ہوگا جب تک پولیس پہ شہریوں کا اعتماد بحال نہیں ہوتا اب یہ سوچنا ریاستی اداروں کا کام ہے کہ پولیس پہ عوام کا اعتماد کیسے بحال کیا جائے؟ اور یہ بھی معلوم کیا جائے کہ آخر پولیس کی ایسے کون سے "کارنامے" ہیں جن کی وجہ سے شہریوں کا پولیس پہ سے اعتماد ہی اٹھ گیا ہے؟

ایک اور پہلو یہ ہے کہ جب کوئی چیز حد سے بڑھ جاتی ہے تو لوگ اس بارے میں لاپرواہ ہوجاتے ہیں۔ جیسے آج کل کرونا سے لاپرواہ ہو گئے ہیں جیسے کسی زمانے روزانہ ہونے والی دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگز نے لوگوں کو بے حس سا بنا دیا اسی طرح کراچی کے شہری اب چوری ڈکیتی کی وارداتوں کو لے کر بے حس سے بن گئے ہیں صرف وہ شہری پریشان ہوتا ہے جو ایسے واقعات کا شکار ہو کر جانی یا مالی نقصان اٹھائے۔ لوگ سوچتے ہیں روزانہ کا معمول ہے اس پہ کیا بات کریں؟

ہم کراچی والوں کا قصور ہے کہ ہم سب کچھ برداشت کرتے گئے۔ ٹارگٹ کلنگز، دہشت گردی اسٹریٹ کرائمز سے لے کر کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں اور ابلتے نالوں تک ہر چیز ہم نے برداشت کرلی۔ کبھی کسی سے سوال تک نہیں کیا کہ ہمیں ہمارا قصور تو بتائیں۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ ریاستی ادارے بے فکر ہیں کوئی دو چار اجلاس کر لئے تشویش کا اظہار کر لیا اور بس جی اللہ اللہ خیر صلا۔ہم نے خبروں میں سنا تھا کہ سیف سٹی پراجیکٹ شروع ہوگا جس کے تحت شہر بھر میں دس ہزار کیمرے لگائیں جائیں گے۔ اس پراجیکٹ کا اب کچھ پتہ نہیں سندھ حکومت کے وزیروں مشیروں سے جب اس بارے میں میڈیا سوال کرتا ہے تو وہ ہر دفعہ نئی تاریخ دے کر عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیتے ہیں۔ اسی طرح اسٹریٹ کرائمز سے بچاؤ کے لئے اور بہت سے اقدامات کرنے کے وعدے دعوے کئے گئے مگر نتیجہ ندارد۔

کراچی کے شہری تو بس یہی چاہتے ہیں کہ وہ روز روز لٹنے سے بچیں پولیس کے پاس جب اپنی روداد لے کر جائیں تو پولیس ہمیں ہی شک کی نظروں سے دیکھنے کے بجائے ان مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ لیکن یقین مانیں تو یہ سب ایک خواب نظر آتا ہے جس کے پورا ہونے کی امید بھی تقریباً معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ کراچی کے شہری یونہی لٹتے مرتے رہیں گے پولیس مجرموں کی سرپرستی کرتی رہے گی اور رہی سندھ حکومت تو وہ بھی اجلاسوں اور کاغذی کارروائی سے زیادہ کچھ نہیں کرے گی۔