راولپنڈی کی حدود گلریز میں پچیس سالہ نوجوان آکاش ایک دوست کے مہمان خانے پر سو رہا تھا جب راولپنڈی پولیس نے رات دو بجکر پندرہ منٹ پر مہمانے خانے پر دھاوا بول دیا اور آکاش کو اپنے ساتھ لے گئی۔ اس واقعے کے دو دن تک آکاش کا کسی کو کوئی پتہ نہیں چلا کہ آکاش کدھر گیا؟ بس دو دن بعد رات کو اس کے ماموں کو ٹیلیفون آیا جس میں بتایا گیا کہ آکاش نامی ایک نوجوان کی لاش ہسپتال میں پڑی ہے آپ لاش وصول کرلیں۔ جس کے بعد آکاش کے ماموں اور کچھ دوست وہاں پہنچ گئے اور دیکھا تو راولپنڈی پولیس کی دو گاڑیاں ہسپتال کے باہر کھڑی ہے اور پولیس والے ہسپتال کے اندر اور باہر موجود تھے اور اُن کو بتایا گیا کہ لاش کو دیکھنا نہیں ہے۔ مقتول آکاش کے والد نے نینشل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس نے آکاش کے اہلخانہ کو ہدایت کی تھی کہ آپ لاش کو آبائی گاؤں لیکر جائیں گے تو کوئی لاش کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔
آکاش کے ماموں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم نے لاش کو غسل اور تدفین کا کہا تو پولیس نے جواب دیا کہ لاش کا غسل پہلے سے ہوچکا ہے اور ہم نے لاش کو تابوت میں بند کرکے تالا لگایا ہے اور کوئی اس کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔ ہم نے بہت اصرار کیا مگر پولیس نے ہمیں دھمکانا شروع کردیا جس کے بعد ہم نےمجبور ہوکر لاش گجرات میں تدفین کے لئے روانہ کی۔ وہ کہتے ہیں کہ راستے میں جگہ جگہ پولیس کی گاڑیاں ہمارے قافلے میں شامل ہوتی گئی اور لاش دفنانے تک ہمارے ساتھ رہیں اور ہمیں کہا گیا کہ اگر کسی کو اس حوالے سے کچھ بتایا تو انجام اچھا نہیں ہوگا۔
پچیس سالہ نوجوان آکاش زمینوں کا کاروبار کرتا تھا اور ان کے والد نے راولپنڈی میں ان کے لئے کمرہ سجایا تھا کیونکہ دسمبر کے دوسرے ہفتے میں اُن کی شادی تھی مگر جعلی پولیس مقابلے نے ان کے سارے خواب توڑ دئیے۔ آکاش والدین کا اکلوتا بیٹا تھا اور ان کی کوئی اور اولاد نہیں ہے۔
ان کے والد نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اگر پورے ملک میں اُن کے بیٹے پر کوئی ایف آئی آر ثابت ہوئی تو وہ پوری عمر جیل بھگتنے کو تیار ہیں مگر میرے بیٹے کو دہشگرد ثابت کیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اُٗن کی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں تھی ۔ انہوں نے کہا کہ میرے بیٹے آکاش کا ایک دوست ظفرتھا اور دونوں میں بہت اچھی دوستی تھی اور نہ صرف اُن کی شکل ملتی تھی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دونوں کپڑے بھی ایک جیسے خریدتے تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس دن بھی آکاش کو ظفر سمجھ کر اُٹھایا گیا اور ان کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ ان کے والد نے مزید کہا کہ ظفر کی گجرات سے تعلق رکھنے والے خالد لون سے کوئی رنجش تھی اور ان کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے تھا لیکن میرے بیٹے کا اُس سے کوئی تعلق نہیں تھا اور تھانہ نصیر آباد کے ایس ایچ او نے پیسے لیکر ریڈ کی۔ اور ریڈ کرکے میرے بیٹے کو جعلی پولیس مقابلے میں مروادیا۔
وہ کہتے ہیں کہ تاحال میرے بیٹے کی ایف آئی آر نہیں کٹی اور پولیس مجھے دھمکی دے رہی ہے کہ اپ ہم سے صلح کرلیں اور ہمیں معاف کردیں ہم سے غلطی ہوئی۔ مگر میرے جوان بیٹے کو ماردیا گیا ہے میں کیسے صلح کرلوں اور میں انصاف کے لئے ہر حد تک جاؤنگا۔ آکاش کے والد نے کہا کہ مجھے تھانے میں پولیس کے کچھ لوگوں نے بتایا کہ آپ کے بیٹے کو ظفر سمجھ کر مارا گیا ہے اور ایس ایچ او صاحب خود جعلی مقابلے میں موجود تھے۔