8 فروری کو ووٹر اسٹیبلشمنٹ کی منصوبہ بندی ناکام بنا سکتا ہے؟

اگر نواز شریف واقعی اگلے وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو حکومت بننے کے فوراً بعد ان کی جمہوری ساکھ کا امتحان شروع ہو جائے گا کیونکہ اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ پس منظر میں چلی جائے گی اور اگر عمران خان کے ساتھ معاملات بدستور موجودہ ڈگر پر چلتے رہے تو اس کا تمام تر الزام نواز شریف کے سر جائے گا۔

8 فروری کو ووٹر اسٹیبلشمنٹ کی منصوبہ بندی ناکام بنا سکتا ہے؟

ایک ہی ہفتے میں اوپر تلے آنے والے تین عدالتی فیصلوں کے بعد کسی شک کی گنجائش نہیں بچتی کہ 2016 میں شروع ہونے والے منصوبے کو اب لپیٹا جا رہا ہے۔ 8 فروری کو واضح ہو جائے گا کہ احتیاط سے تیار کیا گیا نیا منصوبہ کامیاب ہو پاتا ہے یا نہیں۔

یہ منصوبہ اگر ناکام ہوا تو پولنگ ڈے پہ ہو گا مگر اس کا امکان بہت خفیف ہے۔ پی ٹی آئی کا ووٹر شدید غصے میں ہے کہ عمران خان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ اگر یہ ووٹر پولنگ ڈے پر پارٹی کے حمایت یافتہ امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ سٹیشن پہنچ گیا تو کیا ہو گا؟ کتنے ووٹ کسی ایک یا دوسری وجہ سے کوڑے دان میں پھینک کر ضائع کیے جا سکیں گے؟

واقعات کی ترتیب کو اگر دیکھا جائے جو اس وقت شروع ہوئے جب عمران خان کو اپنے سابق عسکری حامیوں کی مدد سے ہاتھ دھونے پڑے، اس کے بعد 9 مئی 2023 کی حماقت کے بعد ان کے سپورٹرز کے خلاف ہونے والا کریک ڈاؤن، عمران خان کی گرفتاری، قید اور پھر سزا، اس کے بعد الیکشن کمیشن کا وہ فیصلہ جس کے مطابق پی ٹی آئی سے انتخابی نشان بلا واپس لیا گیا اور سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلے کی حمایت کی؛ ان سب واقعات کو دیکھیں تو صرف ایک ہی منظرنامہ دکھائی دیتا ہے۔

اگرچہ اس مرحلے پر بھی یہ ایک اندازہ ہی ہے مگر زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا اور پتہ چل جائے گا کہ واقعات اسی مفروضے کے مطابق رونما ہوتے ہیں یا نہیں۔ اگر ایسا ہی ہوا تو پاکستان مسلم لیگ ن انتخابات میں فاتح ٹھہرے گی اور نواز شریف کی سربراہی میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

دوسری جانب عمران خان کو ماتحت عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں اپیلیں دائر کر کے مقدمات لڑنا ہوں گے جبکہ انہیں نئے مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا جیسا کہ القادر ٹرسٹ کیس ہے جس کے مطابق پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض نے مبینہ طور پر زمین کا ایک بڑا حصہ عمران خان اور ان کی اہلیہ کے زیرانتظام بنائے گئے ٹرسٹ کو دیا تھا اور بدلے میں 190 ملین پاؤنڈ کا فائدہ حاصل کیا تھا۔

پچھلے سال 9 مئی کو جو کچھ ہوا، فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اسے بغاوت کے طور پر دیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا غصہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور عمران خان اور ان کی جماعت کو دردناک انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس انتقام سے متعلق مسلم لیگ ن کے ایک رہنما کہتے ہیں کہ ' اسٹیبلشمنٹ کا یہ غصہ اس سے کہیں شدید ہے جس کا سامنا ہمیں 2018 میں کرنا پڑا تھا'۔

نواز شریف لمبے عرصے سے شکایت کر رہے ہیں کہ 2016 میں ان کی حکومت کو غیر مستحکم کیا گیا تھا اور وہ بار ہا کہتے رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ ہونے والی تمام زیادتیوں کا ازالہ کرے۔ 2016 میں جس طرح ایک جماعت کو توڑنے اور دوسری کو آگے لانے کے لیے زور زبردستی پر مبنی طریقے اپنائے گئے، آج جو کچھ ہو رہا ہے یہ اسی عمل کا تسلسل ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مستقبل میں بھی یہی سب کچھ ہوتا رہے گا؟

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

یہ سوال اس لیے اٹھایا جا رہا ہے کہ یہ طریقے سیاسی ماحول کو خراب کرتے ہیں اور معیشت پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے واضح کر دیا ہے کہ معیشت اس کی اولین ترجیح ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا یہ نکتہ نظر قابل فہم بھی ہے کیونکہ امریکہ کی جانب سے شروع کی گئی 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' ختم ہو چکی ہے اور اس جنگ کی مد میں ملنے والی فوجی امداد بھی رک گئی ہے۔

اگر معیشت مستحکم نہیں ہوتی اور شرح نمو میں بہتری نہیں آتی تو دفاعی بجٹ کا حجم بھی کم کرنا پڑ جائے گا۔ ابھی تک اسٹیبلشمنٹ اور ان کے موجودہ سربراہ مسلم لیگ ن پر انحصار کر رہے ہیں۔ انہیں اعتماد ہے کہ نواز شریف ہی ملکی معیشت کو پٹڑی پر واپس لا سکتے ہیں جس کے بعد اس کی شرح نمو میں بھی بہتری آئے گی۔

نواز شریف کے سیاسی کریئر میں ٹرننگ پوائنٹ تب آیا جب 2008 کے انتخابات سے قبل انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ لندن میں میثاق جمہوریت کی دستاویز پر دستخط کیے تھے۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے جب انہیں اقتدار سے نکال کر جیل میں ڈالا اور پھر انہیں طویل جلاوطنی اختیار کرنا پڑی، ان تمام تر عرصے کے دوران آنے والی مشکلات کے بعد 2007 میں نظر آیا کہ نواز شریف ایک جمہوریت پسند سیاست دان میں تبدیل ہو چکے ہیں۔

اس کے بعد سے نواز شریف کم و بیش اپنے اسی جمہوری نظریے پر قائم رہے۔ انہوں نے 1990 کے عشرے کی انتقامی سیاست اور مفاہمت کی سیاست کو الگ الگ کر لیا جس کا ثبوت ہمیں 18 ویں آئینی ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کی منظوری کے دوران پارلیمنٹ میں ان کی حمایت سے ملا۔

جب 2013 میں وہ اقتدار میں آئے تو خیبر پختونخوا سے ان کی پارٹی کے کئی رہنماؤں نے تجویز دی کہ انہیں نئے اور پرانے اتحادیوں کے ساتھ مل کر صوبے میں مخلوط حکومت بنانی چاہیے۔ یہ عددی اعتبار سے ممکن بھی تھا مگر نواز شریف نے یہ کہتے ہوئے صاف انکار کر دیا کہ پاکستان تحریک انصاف انتخابات میں صوبے کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے اس لیے حکومت بنانے کا اولین حق ان کا ہے۔

اگر نواز شریف واقعی اگلے وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو حکومت بننے کے فوراً بعد ان کی جمہوری ساکھ کا امتحان شروع ہو جائے گا کیونکہ اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ پس منظر میں چلی جائے گی اور اگر عمران خان کے ساتھ معاملات بدستور موجودہ ڈگر پر چلتے رہے تو اس کا تمام تر الزام نواز شریف کے سر جائے گا۔

اگر اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی رہنما کے ساتھ موجودہ رویہ برقرار رکھتی ہے جس کے بارے میں عوامی تاثر یہ ہے کہ عمران خان جب حکومت میں تھے تو وہ بھی مخالفین کے ساتھ یہی کچھ کرتے رہے تھے، تو نواز شریف کا امیج ایک مرتبہ پھر 1990 کی دہائی والے انتقامی سیاست دان جیسا دکھائی دے گا۔

عمران خان خواہ حکومت میں رہے یا اپوزیشن میں، انہوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کو خاطر میں لانے پہ ذرا بھی وقت صرف نہ کیا اور تمام جماعتوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔ لیکن اگر وہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار واقعی محدود کرنا چاہتے ہیں جو ان کے دور حکومت میں بہت بڑھ گیا تھا تو انہیں ممکنہ سیاسی اتحادیوں کے ساتھ راہ و رسم بڑھانا ہو گی۔

ان ممکنہ سیاسی اتحادیوں میں لازمی طور پر تمام بڑی سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ ان جماعتوں میں سے کسی کو بھی اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مداخلت پسند نہیں لیکن پھر بھی جب ان میں سے کوئی اسٹیبلشمنٹ کی مدد حاصل کرنے پہنچ جاتا ہے تو دیگر جماعتیں بھی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں لگ جاتی ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سیاسی معاملات میں جتنی بھی مداخلت ہوتی ہے یہ سویلین اور سیاسی پروکیسز ہی کی مرہون منت ہے۔ لہٰذا سیاسی جماعتیں خواہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، انہیں یہ سمجھ جانا چاہیے کہ ان کا سویلین بالادستی کا مقصد صرف پارلیمنٹ میں موجود دیگر سیاسی جماعتوں کی مدد سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ غیر جمہوری قوتوں کے سامنے جھکنے سے یہ مقصد کبھی نہیں حاصل ہونے والا۔

آپ کو لگ رہا ہو گا کہ کالم نگار جلد بازی میں نتیجہ اخذ کر رہا ہے کہ 8 فروری کو ووٹر دو حصوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔ ایسا ہو سکتا ہے۔ ہمارے جیسے حالات میں سیاسی تجزیہ سائنس جیسا قطعی نہیں ہوتا۔ ہمارا کام مختلف امکانات کا جائزہ لینا اور کچھ ممکنہ تصویریں پیش کرنا ہے۔ مجھے بہت خوشی محسوس ہو گی اگر ووٹر 8 فروری کو مجھے غلط ثابت کر دیں۔ کیونکہ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔

**

عباس ناصر کا یہ تجزیہ انگریزی اخبار Dawn میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لیے ترجمہ کیا گیا ہے۔

عباس ناصر سینیئر صحافی اور ڈان اخبار کے سابق مدیر ہیں۔