ووٹ کو عزت مت دو کیونکہ یہ ووٹ لیا تو ہم سے جاتا ہے لیکن خدمت کسی اور کی کی جاتی ہے۔ ہم غلام ابن غلام ہیں اور ہم ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے۔
حکومت آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے بھرپور حرکت میں آ چکی ہے۔ 28 نومبر کو سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو چھ ماہ کی عارضی توسیع دیتے ہوئے حکومت کو یہ ہدایت کی تھی کہ وہ اس ضمن میں پارلیمنٹ میں اس دوران قانون سازی کرے۔ اس سلسلے میں پہلے حکومت نے کچھ دنوں قبل ہی سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست جمع کی اور اس کے کچھ ہی دن بعد حکومت نے قانون سازی کے لئے آرمی ایکٹ میں ترمیم کر ڈالی۔ اب اس کے بعد اگلا مرحلہ یہ تھا کہ یہ ترمیم پارلیمنٹ میں پیش کی جاتی اور یہ جانا جاتا کہ اپوزیشن میں کون کون سی جماعتیں اس قانون سازی میں اس کا ساتھ دیں گی۔ لیکن اس سے پہلے ہی سویلین بالادستی کی چیمپیئن جماعت مسلم لیگ ن نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی حمایت کا اعلان کر دیا۔
یہ ترمیم کوئی اتنی لمبی چوڑی نہیں ہے۔ اس میں محض دو باتیں ہیں۔ ایک یہ کہ حکومتِ وقت کے پاس یہ اختیار ہو گا کہ وہ قومی سلامتی اور ناگہانی ضرورت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے موجودہ آرمی چیف کی 3 سال تک کے لئے دوبارہ تقرری کر سکے گی اور یہ تقرری وہ یکِ بعد دیگرے کر سکے گی۔ یعنی ان 3 سالوں کو بڑھایا بھی جا سکے گا اور آرمی چیف کا پورا دورانیہ 6 سال سے بڑھ جائے گا۔
دوسری ترمیم یہ ہے کہ آرمی چیف کی ملازمت سے متعلق معاملات کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ یہ ترمیم حکومت لے تو آئے گی لیکن اس کی قانونی حیثیت کچھ نہیں ہو گی۔ سپریم کورٹ کے پاس ہر قسم کے کیس سننے کا اختیار ہے۔ یہ اختیار تب تک ان کے پاس ہے جب تک ہمارے قانون کی بنیاد برطانوی آئینی اصولوں پر ہے۔ اب سپریم کورٹ اپنا اختیار استعمال کرے یا نہ کرے یہ اس پر منحصر ہے۔ اس نظریے کو انگریزی میں inherent jurisdiction کہا جاتا ہے جس کے تحت اعلیٰ عدلیہ کو ہر وہ کیس سننے کا اختیار ہے جو اس کے سامنے لایا جائے، شرط یہ ہے کہ آئین میں وہی کیس کسی اور عدالت کے لیے مختص نہ ہو۔
پہلے تو توسیع آرمی چیف خود اپنے آپ کو دے دیا کرتے تھے۔ پہلی مرتبہ توسیع دینے کی باری تب آئی تھی جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور یوسف رضا گلانی نے ٹی وی پر اعلان کر کے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو توسیع دے دی۔ ہونا اس مرتبہ بھی کچھ یوں ہی تھا لیکن انتہائی پراسرار حالات میں اچانک سے سپریم کورٹ نے اس مسئلے کو اٹھا لیا اور حکومت کو عجیب پھسوڑی میں ڈال دیا ہے۔
آرمی چیف کو توسیع ملے یا نہ ملے، وہ آرمی چیف رہیں یا کوئی نیا آ جائے ان کی خدمت کرنے کے لیے سب حاضر ہیں۔ لیکن عوام کا کیا بنے گا؟ عوام کے کسی کام کے لیے کوئی حکومت پھرتی نہیں دکھاتی اور دکھائے بھی کیوں؟ شاید عوام کو یاد نہیں وہ سبق جو ہم نے بچپن میں پڑھا تھا کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو خیال جس کو خود اپنی حالت کے بدلنے کا
کل سلیم صافی ایکسپریس ٹی وی کے ایک پروگرام میں خصوصی مہمان تھے اور انہوں نے انتہائی خوبصورت بات کہہ ڈالی۔ بات سیاست میں اخلاقیات کی ہو رہی تھی۔ سلیم صافی نے کہا کہ جب ہم خود انفرادی طور پر ایک موافقت نما زندگی گزار رہے ہیں تو ہم سیاستدانوں سے کیوں توقع رکھتے ہیں کہ وہ انقلابی ہو جایئں۔ سب سے پہلی مثال انہوں نے اپنی دی کہ وہ اپنے آپ کو سو فیصد سچا صحافی نہیں سمجھتے۔ واقعی میں جب ہم خود کسی نہ کسی مصلحت کا شکار ہیں تو کسی نہ کسی مصلحت کا یہی سیاستدان بھی تو شکار ہیں۔ ساتھ ہی صافی صاحب نے کہا کہ اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنے نوجوانوں سے سچ بولنا چاہیے تا کہ ان کو حقیقت دیر سے پتہ چلنے سے صدمہ نہ ہو۔
آرمی چیف کی توسیع کا جواز جن الفاظ میں بھی ملبوس کر کے پیش کیا جائے، ملکی سلامتی کی ضرورت، خطے میں امن کو خطرہ وغیرہ وغیرہ، حقیقت یہی ہے کہ ہر آرمی چیف زیادہ سے زیادہ عرصہ چیف رہنا چاہتا ہے۔ وہ ریٹائر نہیں ہونا چاہتا۔ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاالحق، جنرل پرویز مشرف، جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل قمر جاوید باجوہ ان سب کی توسیع میں مشترک بات یہ ہے کہ ان سب کا یہ کہنا تھا کہ ملک کو پیش نظر حالات کی وجہ سے مجھ مسیحا کا ہونا ناگزیر ہے۔ جنرل راحیل شریف بھی ریٹائر نہ ہوئے اور اپنے لیے زبردست نوکری ڈھونڈ لی۔ لیکن یہ سب وہ مجبوری میں کرتے ہیں۔ کون اپنی بادشاہت چھوڑنا چاہتا ہے۔ جب وزیراعظم، وزیراعلیٰ، لاکھوں کی فوج اور کروڑوں کی عوام غیر مشروط طور پر آپ کے تابع ہوں تو کون اترنا چاہے گا ایسی کرسی سے؟ شاید کوئی پاگل ہی ہو گا۔
ہم بھول چکے ہیں کہ ایک نہ ایک دن تو ہم سب کو ریٹائر ہونا ہے چاہے ہم جتنی بھی توسیع کیوں نہ کراتے پھریں۔