پاکستان افغانستان سنجیدہ ہوں تو ہم دونوں میں دوستی کروا سکتے ہیں؛ اچکزئی

پاکستان افغانستان سنجیدہ ہوں تو ہم دونوں میں دوستی کروا سکتے ہیں؛ اچکزئی
ملک کے موجودہ سیاسی اور معاشی حالات صرف روایتی انداز میں انتخابات کروانے سے ٹھیک نہیں ہوں گے، جب تک تمام سٹیک ہولڈرز کی گول میز کانفرنس بلا کر اس سوال کا جواب نہ تلاش کیا جائے کہ یہ ملک کس نے اور کیسے چلانا ہے تب تک حالات جوں کے توں رہیں گے۔ ان خیالات کا اظہار پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے اسلام آباد بار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اسلام آباد بار ایسوسی ایشن نے محمود خان اچکزئی کو 'پاکستان کی بقا جمہوریت، قانون اور آئین کی حکمرانی میں مضمر ہے' کے موضوع پر خطاب کے لئے مدعو کیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سب کچھ ہے، وسائل کی کوئی کمی نہیں۔ اگر کمی ہے تو وہ جمہوریت کے استحکام، آئین کی حکمرانی اور قانون کی بالادستی کی کمی ہے۔ اس مقصد کے لئے محمود خان اچکزئی نے تمام سیاسی و جمہوری قوتوں بشمول عمران خان کو دعوت دی کہ آئیں مل بیٹھ کر اس ملک کو آئین اور قانون کے مطابق چلانے کے لئے راہ نکالتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لئے وہ ہر کسی کے پاس جانے اور اپنا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ایک طرف بین الااقوامی و علاقائی صورت حال ہے اور دوسری طرف ملکی سیاسی اور معاشی حالات بھی ہمارے حق میں نہیں ہیں۔ ملکی معاشی حالات کی وجہ سے غربت اور مہنگائی اس نہج پر پہنچنے والی ہے کہ اگر بروقت اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو حالات کسی بھی وقت افراتفری اور خانہ جنگی کی طرف جا سکتے ہیں۔ ریاست کی بقا کے لئے ضروری ہے کہ قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ اسٹیبلشمنٹ کو آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا کڑوا گھونٹ پینا ہوگا۔

پاکستان مختلف النوع اور تنوع والی ریاست ہے اور اس کو بزور طاقت نہ متحد رکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی چلایا جا سکتا ہے۔ اس کی بقا جمہوری وفاق، آئینی اور پارلیمانی بالادستی میں ہے جہاں ہر قوم کو اپنے وسائل پر اختیار ہو اور سیاسی، معاشی و ثقافتی حقوق حاصل ہوں۔ اس سلسلے میں محمود خان اچکزئی نے بھارت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں مختلف عقائد، سینکڑوں زبانیں اور کئی قومیں موجود ہیں اور غربت بھی ہے لیکن وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بنانے اور چلانے میں کامیاب ہوئے۔ اب وہ معاشی استحکام اور ترقی کی طرف گامزن ہیں، لیکن ہمیں کیا ہو گیا ہے؟ ہم بھی ان سے کم نہیں ہیں لیکن اس کے لئے ججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹس سمیت سب کو اپنے آئینی دائرے میں رہنا ہوگا۔ یہاں شروع سے مراعات اور کرپشن کے بل بوتے پر ایک مصنوعی سیاسی طبقہ بنایا گیا جو ہر آمرانہ اور نام نہاد جمہوری حکومتوں کا حصہ بنتا ہے۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ ایسے عناصر (لوٹوں) کو اپنی صفوں میں شامل نہ کریں۔

علاقائی صورت حال پر اظہار خیال کرتے ہوئے محمود خان اچکزئی نے کہا کہ اگر کسی ایک ریاست کی بقا اور آزادی کو خطرہ ہوا تو یہ خطرہ پورے خطے کو عدم استحکام کا شکار کر کے بلقانائزیشن کی طرف لے جا سکتا ہے، جس میں نہ تو افغانستان محفوظ ہوگا اور نہ ہی ایران اور پاکستان۔ آزاد افغانستان اور پاکستان بہترین دوست بن سکتے ہیں اور یہ دوستی علاقائی استحکام اور معاشی ترقی کی نوید ثابت ہو گی۔ اگر دونوں اطراف سنجیدہ ہوں تو ہم اس دوستی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں محمود خان اچکزئی نے کہا کہ علی وزیر کی رہائی کے لئے 16 دسمبر کو پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے اور وکلا برادری پر زور دیا کہ علی وزیر کی رہائی کے لئے ہماری آواز میں آواز ملائیں۔

اس موقع پر اسلام آباد بار کے صدر چودھری حفیظ اللہ یعقوب اور جنرل سیکرٹری محمود بلال مغل نے بھی خطاب کیا۔ چودھری حفیظ اللہ یعقوب نے اپنے استقبالیہ خطاب میں محمود خان اچکزئی کی جمہوریت کے لئے جدوجہد اور خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔

طالعمند خان فری لانس صحافی ہیں اور نیا دور کے لئے لکھتے ہیں۔