عمران خان نے آئندہ عام انتخابات کو تماشہ قرار دیدیا

سابق وزیراعظم نے کہا کہ اس صورتحال میں اگر انتخابات ہوتے بھی ہیں تو یہ ایک تباہی اور تماشا ہوگا۔ کیونکہ پی ٹی آئی کو انتخابی مہم چلانے کے بنیادی حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ انتخابات کا اس طرح کا مذاق صرف مزید سیاسی عدم استحکام کا باعث بنے گا۔ اس کے نتیجے میں پہلے سے ہی غیر مستحکم معیشت مزید خراب ہوگی۔

عمران خان نے آئندہ عام انتخابات کو تماشہ قرار دیدیا

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان نے آئندہ عام انتخابات کو تماشہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو انتخابات سے محروم کرنے کے لئے بے چین ہے۔ اس صورتحال میں اگر انتخابات ہوتے بھی ہیں تو یہ ایک تباہی اور تماشا ہوگا۔

برطانوی جریدے دی اکانومسٹ کی جانب سے مضمون لکھنے کی پیشکش پر اڈیالہ جیل سے سابق وزیراعظم عمران خان نے 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات اور ملکی معاشی صورتحال کے حوالے سے تحریر لکھی ہے۔

سابق وزیراعظم نے موجودہ منظر نامے میں عام انتخابات کے انعقاد کو تباہ کن اور مذاق قرار دیا ہے۔

سابق وزیراعظم نے لکھا کہ انتخابات ہوں گے یا نہیں۔ اس حوالے سے عوام میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ تاہم اپریل 2022 میں عدم اعتماد کی مضحکہ خیز ووٹنگ کے ذریعے جس طرح مجھے اور میری پارٹی کو نشانہ بنایا گیا اس سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ، سیکیورٹی ایجنسیاں اور سول بیوروکریسی پی ٹی آئی کو کسی بھی طرح کا موقع فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ اس صورتحال میں اگر انتخابات ہوتے بھی ہیں تو یہ ایک تباہی اور تماشا ہوگا۔ کیونکہ پی ٹی آئی کو انتخابی مہم چلانے کے بنیادی حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ انتخابات کا اس طرح کا مذاق صرف مزید سیاسی عدم استحکام کا باعث بنے گا۔ اس کے نتیجے میں پہلے سے ہی غیر مستحکم معیشت مزید خراب ہوگی۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے منصفانہ انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے جمہوریت خطرے میں ہے اور ہم ان تمام محاذوں پر مخالف سمت میں جا رہے ہیں۔

آرٹیکل میں، سابق وزیراعظم عمران خان نے پی ڈی ایم حکومت کی کارکردگی پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے معیشت کو تباہ کر دیا۔ 18 ماہ کے اندر غیر معمولی افراط زر اور کرنسی کی قدر میں کمی ہوئی۔

انہوں نے قتل کی دو کوششوں، پارٹی رہنماؤں، کارکنان اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے اغوا، قید یا تشدد کا حوالے دیتے ہوئے لکھا کہ’بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ مجھے دوبارہ اقتدار میں آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس لیے مجھے سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کے تمام طریقے استعمال کیے گئے۔

بانی پی ٹی آئی نے اپنے مضمون میں لکھا کہ گزشتہ سال مارچ میں سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود پنجاب میں 14 مئی 2023 کو قبل از وقت انتخابات نہ کرانے کے اقدامات نے ملک میں انتخابات کے سب سے بڑے ادارے الیکشن کمیشن کو داغدار کیا گیا۔ اورالیکشن کمیشن پر تنقید کرنے پر مجھ سمیت پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کے خلاف توہین عدالت کے مقدمات قائم کیے گئے۔

سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے 9 مئی کے واقعات کو ’فالس فلیگ آپریشن‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت پر فوجی تنصیبات پر حملے اور جلاؤ گھیراؤ کا الزام عائد کیا گیا۔لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی ملک کی مقبول ترین جماعت ہے۔جب کہ الیکشن کمیشن اس پارٹی کو انتخابات میں حصہ لینے کے حق سے محروم کرنے کے لیے بے چین ہے۔

بانی پی ٹی آئی نے نواز شریف کے بری ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے عدالتوں پر بھی ان الفاظ میں تنقید کی کہ ایسا لگتا ہے کہ عدالتیں روزانہ اپنی ساکھ کھو رہی ہیں۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ان کو یقین ہے کہ نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت وہ ان کی بریت کی حمایت اور آنے والے انتخابات میں اپنا وزن ان کے پیچھے ڈالے گا۔

بانی پی ٹی آئی نے اپنے مضمون میں اپنے خلاف غداری، پی ٹی آئی کو ورکر کنونشن منعقد کرنے کی اجازت نہ دینے، سائفر تنازعہ اور 2021 میں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اپنے عہدے سے ہٹائے جانے کے علاوہ سمیت دیگر الزامات کے حوالے سے بھی بات کی۔