Get Alerts

'بپرجوائے'؛ بے گھر ہونے والے سینکڑوں افراد تاحال بحالی کے منتظر

'بپرجوائے'؛ بے گھر ہونے والے سینکڑوں افراد تاحال بحالی کے منتظر
بحیرہ عرب میں آنے والے حالیہ طوفان ' بپرجوائے' کی وجہ سے بے گھر ہونے والے سینکڑوں خاندان تاحال حکومت سندھ کی جانب سے امداد اور بحالی کے منتظر ہیں۔

رواں ماہ 14 سے 19 جنوری کے دوران سمندری طوفان ' بپرجوائے' کے صوبہ سندھ کی ساحلی پٹی سے ٹکرانے کے خطرے کے پیش نظر صوبائی حکومت نے 3 اضلاع؛ ٹھٹہ، بدین اور سجاول سے لگ بھگ 76 ہزار افراد کو سمندر کنارے ان کے گوٹھوں (گاؤوں) سے نکال کر محفوظ مقامات پر قائم کردہ عارضی ریلیف کیمپوں میں منتقل کرنے کا دعویٰ کیا تھا تا کہ جانی و مالی نقصانات سے بچا جا سکے۔

اس ساحلی پٹی کو ' انڈس ڈیلٹا' بھی کہا جاتا ہے جس کا شمار دنیا کے پانچویں بڑے ڈیلٹا کے طور پر ہوتا ہے۔

ماحولیاتی ماہر الطاف سیال کا کہنا ہے کہ سمندری طوفان ' بپرجوائے' کا رخ آخری وقت میں انڈیا کے شہر گجرات کی جانب ہو گیا جس کی وجہ سے یہ طوفان انڈس ڈیلٹا سے تقریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے سے گزر گیا۔ اس لیے سندھ کی ساحلی پٹی کے ساتھ قائم اضلاع میں جانی ومالی نقصان نہیں ہوا جس کا شروع میں خدشہ تھا۔

جبکہ دوسری جانب مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سمندری طوفان کے گزر جانے کے بعد متعلقہ ضلعوں کی انتظامیہ نے بڑی تعداد میں بے گھر ہونے والے خاندانوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔

ماہی گیروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم پاکستان فشر فوک کے مقامی رہنما علی رضا ونجارو کا کہنا ہے کہ لگ بھگ 30 سے 35 ہزار افراد تاحال بے گھر ہیں جنہیں ان کے علاقوں میں واپس لانے کے لیے ضلعی انتظامیہ نے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ اضلاع بڑی تباہی سے بچ گئے ہیں جس کا شروع کے دنوں میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا تاہم بے گھر افراد کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔

ونجارو نے بتایا کہ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ سینکڑوں خاندان تاحال محفوظ علاقوں میں اپنے عزیز و اقارب کے گھروں میں مجبوراً ٹھہرے ہوئے ہیں جن کے پاس خوراک ہے اور نہ ہی پینے کا صاف پانی۔ ان کے پاس اتنے مالی وسائل بھی نہیں ہیں کہ وہ خود اپنے علاقوں میں واپس جا سکیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ دوسرا بڑا مسئلہ روزگار کا ہے۔ جو لوگ واپس اپنے علاقوں میں کسی نہ کسی طرح پہنچ رہے ہیں ان کے لیے روزگار میسر نہیں کیونکہ کئی لوگوں کی کشتیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں جبکہ دوسری جانب صوبائی محکمہ فشریز نے سمندر میں شکار پر ایک ماہ کی پابندی عائد کر دی ہے۔

واضح رہے کہ جون اور جولائی کے مہینوں کا عرصہ دراصل مچھلیوں کے انڈے دینے کا سیزن ہوتا ہے جس کے دوران مچھلی کے شکار پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔

پاکستان فشر فوک کے رہنما علی رضا ونجارو کے مطابق حکومتی انتظامیہ نے اپنے گھروں کو واپس آنے والے مچھیروں اور کسانوں کو راشن فراہم کرنے کا کوئی بندوبست کیا ہے اور نا ہی ان کی عارضی طور پر مالی امداد کی جا رہی ہے تا کہ وہ اپنے کھانے پینے اور دیگر روزمرہ ضروریات کا انتظام کر سکیں۔

ان بے گھر افراد کی بڑی تعداد نے عیدالاضحیٰ اپنے گھروں سے دور رہ کر گزاری ہے۔ مجموعی صورت حال یہ ہے کہ جو لوگ انڈس ڈیلٹا کے علاقوں میں واپس پہنچ چکے ہیں وہ اپنے گھروں میں بے روزگاری کا شکار ہیں جبکہ بڑی تعداد میں لوگ اپنے گھروں کو لوٹنے کے لئے حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔

نعیم اکبر کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہیں۔