صوبہ سندھ میں بحیرہ عرب اور دریائے سندھ کے سنگم پر واقع انڈس ڈیلٹا کا شمار دنیا کے پانچویں بڑے ڈیلٹا کے طور پر ہوتا ہے۔ ضلع ٹھٹہ کی ساحلی پٹی پر ایک ہزار مربع کلومیٹر تک پھیلے اس خطے کے باسیوں کے لیے تازہ اور میٹھے دریائی پانی کی کمی اور بڑھتے ہوئے سمندری کٹاؤ جیسے مسائل شدید ذہنی و مالی پریشانیوں کا باعث رہے ہیں۔
انڈس ڈیلٹا میں صدیوں سے دو برادریاں آباد رہی ہیں؛ مچھیرے اور کسان۔ لیکن گذشتہ ایک دہائی کے دوران سینکڑوں لوگوں نے اپنے آبائی پیشے سے کنارہ کشی اختیار کر کے محنت مزدوری کو اپنے لیے ذریعہ معاش بنا لیا ہے تا کہ اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکیں۔
سال 2022 میں شدید بارشوں اور طغیانی کے باعث آنے والے سیلاب نے پاکستان کے 1/9 حصے پر تباہی مچائی، 1600 سے زائد افراد اور ہزاروں مال مویشی جاں بحق ہو گئے جبکہ لاکھوں گھر بھی بہہ گئے۔ تاہم انڈس ڈیلٹا کے علاقے کے لیے یہ سیلاب رحمت ثابت ہوئے ہیں۔ مچھیروں اور کسانوں نے اپنے ماضی کے نقصانات اور حالیہ خوشحالی کی کہانیاں کچھ یوں سنائیں:
اللہ ڈینو جات کی عمر 90 سال ہے اور وہ کیٹی بندر کے رہائشی ہیں جہاں انہوں نے اپنے بچپن سے لے کر تمام عمر ماہی گیری کی ہے۔ آج کل وہ بہت خوش نظر آ رہے ہیں۔ اگرچہ جون کے مہینے میں کیٹی بندر میں بھی درجہ حرارت زیادہ ہے لیکن اللہ ڈینو پھر بھی پرجوش ہیں اور سمندر سے مچھلی پکڑنے کے لیے بے تاب ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ آج کل مچھیرے بہت خوش ہیں۔ ڈیلٹا میں مچھلی کی تعداد بڑھ گئی ہے اس لیے ان کے گھروں میں سالوں بعد معاشی خوشحالی آئی ہے۔
کیٹی بندر براعظم ایشیا کی قدیم بندرگاہوں میں سے ایک ہے۔ دریائے سندھ میں تازہ اور میٹھے پانی کی قلت کے باعث یہ بندرگاہ تقریباً ویران ہو چکی تھی جبکہ انڈس ڈیلٹا تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا تھا۔
اللہ ڈینو کہتے ہیں کہ پچھلے سال آنے والے سیلاب کی وجہ سے بڑی مقدار میں دریا کا تازہ اور میٹھا پانی اس علاقے میں آیا ہے جس نے نا صرف سمندری پانی کو پیچھے دھکیل دیا ہے بلکہ سمندری آب کی افزائش بھی پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ پچھلی بار انڈس ڈیلٹا میں بڑی مقدار میں دریائی پانی 2010 میں آنے والے سیلاب کے وقت آیا تھا۔ اس کے بعد ڈیلٹا کو اس کی مقررہ مطلوبہ مقدار میں پانی نہیں ملا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے انڈس ڈیلٹا کو ایک نئی زندگی ملی ہے۔
ڈاکٹر الطاف علی سیال سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی جامشورو کے شعبہ ایگریکلچرل انجینئرنگ کے سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے ڈیلٹا کی صورت حال بتدریج خراب ہو رہی تھی جس کی بڑی وجہ اس میں تازے پانی کا شامل نہ ہونا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ سال سندھ اور بلوچستان میں ہونے والی شدید بارشوں اور ان کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کے باعث جولائی 2022 کے دوران تقریباً 42 لاکھ ایکڑ فٹ سے زیادہ تازہ اور میٹھا پانی دریائے سندھ کے ذریعے ڈیلٹا میں شامل ہوا تھا۔ یقینی طور پر ڈیلٹا کے خطے میں بڑی تبدیلی آئی ہے جس کے ماحولیات اور آبی حیات پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
سندھ کے محکمہ آبپاشی کے اعداد و شمارکے مطابق 1828-29 میں انڈس ڈیلٹا 13 ہزار مربع کلومیٹر تک پھیلا ہوا تھا اور اس علاقے میں 17 چھوٹی بندرگاہیں تھیں۔ تاہم اب اس علاقے کا رقبہ 90 فیصد تک سکڑ چکا ہے اور موجودہ اعداد و شمار کے مطابق ایک ہزار پانچ مربع کلومیٹر باقی رہ گیا ہے جبکہ اس میں اب صرف دو چھوٹی بندرگاہیں باقی بچی ہیں؛ کھوبر اور کھار۔
ڈاکٹر سیال کہتے ہیں کہ علاقے میں انسانی اور آبی حیات کے ساتھ ساتھ ماحولیات پر بھی پانی کی کمی سے بہت منفی اثرات پڑے ہیں۔
علی رضا ونجارو پیشے کے لحاظ سے مچھیرے ہیں اور وہ مچھیروں کے مسائل کے حل کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'پاکستان فشر فوک فورم' کے مقامی عہدیدار بھی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بچپن سے ہی اپنے آبائی پیشے سے منسلک ہیں اور گذشتہ لگ بھگ پانچ سے چھ دہائیوں سے یہی کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈیلٹا ایک دن میں بنتا ہے اور نا ہی آباد ہوتا ہے۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے کہ پانی اپنی نکاسی کے ذریعے تلاش کرتا ہے اور جس مقام پر یہ سمندر میں گرتا ہے وہاں ڈیلٹا تشکیل پاتا ہے۔ یہ عمل ازخود تشکیل پاتا ہے، نا کہ کسی انسان کے کرنے سے۔ ونجارو پریشان ہیں کہ انڈس ڈیلٹا کی تباہی کا باعث دراصل انسان بن رہے ہیں نا کہ قدرت۔
وہ کہتے ہیں کہ گذشتہ دہائیوں میں ہزاروں ماہی گیروں نے اپنے آبائی پیشے کو اس لیے خیرباد کہہ دیا ہے کیونکہ ڈیلٹا میں پانی کی شدید قلت ہے جس کا مطلب ہے کہ نا تو اس علاقے میں آبی حیات کی افزائش ہو گی اور نا ہی کھیتی باڑی۔ گذشتہ سالوں کے دوران ڈیلٹا سے کئی ایک آبی حیات تقریباً ناپید ہو چکی ہیں یا ہونے کے خدشات سے دوچارہیں۔ ان میں مچھلی کی اقسام سوا، گھانگھری، منگرا، ہیرا اور پلہ سرفہرست ہیں جبکہ کیکڑے کی نسل کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ پہلے یہ مچھلیاں منوں کے حساب سے ماہی گیر روزانہ پکڑتے تھے جبکہ اب یہ تعداد چند سو کلوگرام تک پہنچ گئی ہے۔
خیر محمد بھی انڈس ڈیلٹا کے علاقے کے مکین ہیں اور پیشے کے لحاظ سے کاشت کار ہیں۔ وہ میٹھے دریائی پانی کی کمی کے باعث آگے بڑھتے ہوئے سمندری پانی کی وجہ سے ہونے والے زمینی کٹاؤ سے سخت پریشانی میں مبتلا ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے بچپن میں سمندر کا پانی ان کی قابل کاشت آبائی زمینوں سے کئی کلومیٹر دور ہوتا تھا لیکن اب سمندر اتنا آگے آ گیا ہے کہ ان کی ہزاروں ایکڑ آبائی زمینیں اس کی نذر ہو چکی ہیں۔
خیر محمد نے بتایا کہ سمندر نے تقریباً 400 ایکڑ سے زیادہ ان کے خاندان کی قابل کاشت زمینوں کو پچھلی چار دہائیوں میں ہڑپ لیا ہے جبکہ سمندر ابھی بھی تیزی سے آگے کی طرف بڑھ رہا ہے۔
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق عالمی طور پر اگرچہ پاکستان اعشاریہ ایک فیصد سے بھی کم ماحولیاتی آلودگی کی وجہ بن رہا ہے پھر بھی یہ دنیا کے ان 10 ممالک میں آ چکا ہے جو ماحولیاتی طور پر ہونے والی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈس ڈیلٹا کو سالانہ کی بنیاد پر 8-6 ملین ایکڑ فٹ میٹھے اور تازہ دریائی پانی کی ضرورت ہوتی ہے جس کا مطلب ہے کہ 5000 کیوسک روزانہ۔
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق 1991 میں پاکستان کے چاروں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے حوالے سے ہونے والے معاہدے انڈس واٹر اپارشنمنٹ اکارڈ کے مطابق انڈس ڈیلٹا کو سالانہ کی بنیاد پر 10 لاکھ ایکڑ فٹ پانی دیا جانا چاہئیے جبکہ معاہدے کے مطابق ہر سال پانی کی مقدار میں 25 لاکھ ایکڑ فٹ کا اضافہ بھی ہونا چاہئیے۔
ماحولیاتی ماہر ڈاکٹر سیال کے مطابق ہمارا ملک اس وقت پانچ میں سے صرف دو دریاؤں کے پانی پر انحصار کر رہا ہے۔ تاہم ان دریاؤں پر بھی 25 کے قریب بیراج یا بند تعمیر کئے جا چکے ہیں جن کی وجہ سے انڈس ڈیلٹا کو تقریباً 1950 سے لے کر آج تک مطلوبہ تعداد میں دریائی پانی نہیں ملا ہے۔ وہ اس خطرے کا اظہارکرتے ہیں کہ اگر اگلے سال مون سون کی بارشیں نہ ہوئیں تو خدشہ ہے کہ انڈس ڈیلٹا میں ایک مرتبہ پھر تازہ اور میٹھے پانی کی شدید قلت پیدا ہو جائے گی جبکہ مزید اگلے سالوں میں اگر بارشیں نہ ہوئیں تو اس خطے کی صورت حال انتہائی سنگین شکل اختیار کر سکتی ہے۔