بپرجوائے تو نہیں آیا، انڈس ڈیلٹا کے مکین لیکن طوفان سے بڑی مشکل میں

بپرجوائے تو نہیں آیا، انڈس ڈیلٹا کے مکین لیکن طوفان سے بڑی مشکل میں
بحیرۂ عرب میں آنے والے حالیہ طوفان ' بپرجوائے' کی وجہ سے بے گھر ہونے والے سینکڑوں خاندان تاحال حکومت سندھ کی جانب سے بحالی کے منتظر ہیں۔

رواں ماہ 14 سے 19 جون کے دوران سمندری طوفان ' بپرجوائے' کے صوبہ سندھ کی ساحلی پٹی سے ٹکرانے کے پیش نظرصوبائی حکومت نے تین اضلاع جن میں ٹھٹہ، بدین اور سجاول شامل ہیں سے لگ بھگ 76 ہزار افراد کو سمندر کنارے ان کے گوٹھوں (گاؤں) سے نکال کرمحفوظ مقامات پر قائم کردہ عارضی ریلیف کیمپوں میں منتقل کرنے کا دعویٰ کیا تھا تاکہ جانی ومالی نقصانات سے بچا جا سکے۔

اس ساحلی پٹی کو ' انڈس ڈیلٹا' بھی کہا جاتا ہے جو دنیا کے پانچواں بڑا ڈیلٹا سمجھا جاتا ہے۔

ماحولیاتی ماہر الطاف سیال کا کہنا ہے کہ خوش قسمتی سے سمندری طوفان ' بپرجوائے' کا رخ آخری وقت میں انڈیا کے صوبہ گجرات کی جانب ہو گیا جس کی وجہ سے یہ طوفان انڈس ڈیلٹا سے تقریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے سے گزر گیا۔ اسی لئے سندھ کی ساحلی پٹی کے ساتھ قائم اضلاع میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان نہیں ہوا شروع میں جس کا خدشہ تھا۔

مگر مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سمندری طوفان کے گزر جانے کے بعد متعلقہ ضلعوں کی انتظامیہ نے بڑی تعداد میں بے گھر ہونے والے خاندانوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔

ماہی گیروں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم، پاکستان فشر فوک، کے مقامی رہنما علی رضا ونجارو کا کہنا ہے کہ لگ بھگ 30 سے 35 ہزار افراد تاحال بے گھر ہیں جنہیں ان کے علاقوں میں واپس لانے کے لئے ضلعی انتظامیہ نے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ اضلاع بڑی تباہی سے بچ گئے ہیں شروع کے دنوں میں جس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا لیکن بے گھر افراد کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔

ونجارو نے بتایا کہ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ سینکڑوں خاندان تاحال محفوظ علاقوں میں اپنے عزیز و اقارب کے گھروں میں مجبوراً ٹھہرے ہوئے ہیں جن کے پاس نہ خوراک اور پینے کے صاف پانی کی سہولیات موجود ہیں نہ ہی اتنے مالی وسائل ہیں کہ وہ خود اپنے علاقوں میں واپس جا سکیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ دوسرا بڑا مسئلہ روزگار کا ہے۔ جو لوگ واپس اپنے علاقوں میں کسی نہ کسی طرح پہنچ رہے ہیں ان کے لئے روزگار میسر نہیں کیونکہ کئی لوگوں کی کشتیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں جب کہ دوسری جانب صوبائی محکمہ فشریز نے سمندر میں شکار پر ایک ماہ کی پابندی عائد کر دی ہے۔

واضح رہے کہ جون اور جولائی کے مہینوں کا عرصہ دراصل مچھلیوں کے انڈے دینے کا سیزن ہوتا ہے جس کے دوران مچھلی کے شکار پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔

پی ایف ایف کے رہنما علی رضا ونجارو کے مطابق حکومتی انتظامیہ نے اپنے گھروں کو واپس آنے والے مچھیروں اور کسانوں کو راشن فراہم کرنے کا نہ کوئی بندوبست کیا ہے نہ ہی ان کی عارضی طور پر مالی امداد کی جا رہی ہے تاکہ وہ اپنے روز مرہ کے کھانے پینے کا انتظام کر سکیں۔

دوسری جانب عیدالاضحیٰ کی آمد ہے جب کہ انڈس ڈیلٹا کے بیشتر مکین اپنے گھروں میں بے روزگاری کا شکار ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگ اپنے گھروں کو لوٹنے کے بھی منتظر ہیں۔

نعیم اکبر کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہیں۔