بحیرہ عرب میں آنے والے سمندری طوفان ' بپرجوائے' کے 14 سے 17 جون کے درمیان صوبہ سندھ کی ساحلی پٹی سے ٹکرانے کے امکان کے پیش نظر ضلعی انتظامیہ نے سینکڑوں رہائشی علاقوں کو خالی کروا لیا ہے۔
بدھ کے روز محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری کردہ اطلاعات کے مطابق سمندری طوفان بپرجوائے کراچی سے 310 کلومیٹر جبکہ ضلع ٹھٹہ سے 300 کلومیٹر اور کیٹی بندر سے 240 کلومیٹر دور رہ گیا تھا۔
پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق یہ سمندری طوفان صوبہ سندھ کی اس ساحلی پٹی سے ٹکرا سکتا ہے جسے 'انڈس ڈیلٹا' بھی کہا جاتا ہے اور ایسی صورت حال میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی اور املاک کا نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔
ڈیلٹا اس علاقے کو کہتے ہیں جہاں پر دریائے سندھ کا سنگم بحیرہ عرب سے ہوتا ہے۔ انڈس ڈیلٹا کا شمار دنیا بھر میں پانچویں بڑے ڈیلٹا کے طور پر ہوتا ہے۔ اس ساحلی علاقے میں مچھیروں اور کسانوں کی آبادیاں سالہا سال سے قائم ہیں۔
ماہرین کے مطابق بحیرہ عرب میں بنگلہ دیش کی طرف سے پیدا ہونے والے طوفان جسے ' بپرجوائے' کا نام دیا گیا ہے، اس نے اپنا رخ کراچی کی جانب سے تبدیل کر کے سندھ کے ساحلی علاقوں کی طرف موڑ لیا ہے جن میں ٹھٹہ، سجاول اور بدین کے تین اضلاع شامل ہیں۔
ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ یہ طوفان بدھ (آج کے روز) کو ٹھٹہ، سجاول اور بدین کی ساحلی پٹی سے ٹکرائے گا۔
منگل اور بدھ کے روز حیدر آباد ڈویژن میں ضلعی انتظامیہ کے افسران و اہلکاروں نے مقامی پولیس اور رینجرز کی نفری کی مدد سے بڑے پیمانے پر ساحلی علاقوں کے مکینوں کو نکال کر محفوظ مقامات پر پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ساحل کے ساتھ ساتھ قائم سینکڑوں چھوٹے بڑے گوٹھوں (گاؤں) سے مکینوں کو زبردستی گھروں سے ریسکیو کر کے 37 ریلیف کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا ہے جو ضلعی انتظامیہ کی جانب سے محفوظ مقامات پر قائم کئے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ سندھ کی حکومت نے سمندری طوفان بپرجوائے کے پیش نظر صوبے کے ساحلی علاقوں، بشمول کراچی کے علاقوں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے مکینوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ کسی بھی جانی و مالی نقصان سے بچنے کے لیے اپنے اپنے رہائشی علاقوں کو چھوڑ کر بدھ اور جمعرات کے روز محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی کر جائیں۔
سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن کے مطابق لگ بھگ 67000 لوگوں کو غیر محفوظ مقامات سے ریسکیو کر کے محفوظ مقامات پر قائم کردہ پناہ گاہوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
کراچی میں ساحل کے ساتھ واقع ہاکس بے رہائشی علاقے کے ساتھ ساتھ تفریحی مقامات جن میں سی ویو، سینڈزپٹ وغیرہ شامل ہیں، کوعوام کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ تیز سمندری ہوائیں چلنے سے اونچی سمندری لہریں ساحل سے ٹکرانے کے مناظر کی عکس بندی کے لیے میڈیا نمائندگان کے علاوہ عوام کی بڑی تعداد ساحل سمندر کا رخ کرتی دکھائی دیتی ہے۔
انڈس ڈیلٹا کی صورت حال
ضلع حیدر آباد کے کمشنر بلال احمد میمن نے میڈیا نمائندگان کو بتایا کہ ساحلی علاقوں میں بسنے والے لوگ اپنے گھربار چھوڑنے کو تیار نہیں تھے اس لیے انہیں زبردستی پولیس اور رینجرز کی مدد سے محفوظ علاقوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ تقریباً 80 فیصد سے زائد آبادی کو ان علاقوں سے نکال لیا گیا ہے اور باقی رہ جانے والوں کو بھی نکال لیا جائے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاک فوج بھی مدد کے لیے تیار ہے جو ساحلی علاقوں سے نکالے گئے خاندانوں کو فوری امداد اور طبی سہولیات دینے میں ضلعی انتظامیہ کی مدد بھی کرے گی۔
ضلعی افسران کا کہنا ہے کہ اب تک لگ بھگ 70 ہزار لوگوں کو ایسے ساحلی علاقوں سے نکال لیا گیا ہے جہاں پر خدشات ہیں کہ سمندری طوفان بپرجوائے کے ٹکرانے کے نتیجے میں جانی و مالی اور املاک کے نقصانات ہو سکتے ہیں۔
افسران کے مطابق ضلع سجاول میں کھاروچھان، جاتی اور شاہ بندر، ضلع ٹھٹہ میں کیٹی بندر اور گھوڑاباری جبکہ ضلع بدین میں بدین اور شہید فضل راہو کے علاقے سمندری طوفان سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
مقامی لوگوں کے مطابق سمندر کے پانی کی سطح منگل کے روز سے ہی بلند ہونا شروع ہو گئی تھی اور کئی گوٹھوں میں سمندری پانی گھروں میں داخل ہو گیا ہے جن میں عمرجت، حاجی ہارون جت، لونگ ملاح، حاجی عالم جت، سکندر جت اور چوہڑ جمالی شامل ہیں۔
مچھیروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم پاکستان فشرفوک کے مطابق ضلع بدین کے ساحلی علاقوں سے 3000 سے زائد افراد کو نکال کر گولارچی کے علاقے میں ایک ریلیف کیمپ میں منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ ضلع ٹھٹہ سے 20 ہزارکے قریب لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال کر محفوظ مقامات تک پہنچا دیا گیا ہے۔ نقل مکانی کرنے والوں میں خواتین اور بچوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔