دریائے سندھ کا انحطاط پذیر ڈیلٹا اور نقل مکانی پہ مجبور مقامی آبادیاں

دریائے سندھ کا انحطاط پذیر ڈیلٹا اور نقل مکانی پہ مجبور مقامی آبادیاں
موسمیا تی تبدیلیاں انسان کی زندگی پر بہت تیزی سے اثر انداز ہو رہی ہیں  جیسا کہ طویل مدتی اور مستقل ہجرت بنیادی طور پر خشک سالی اور سیلاب کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتی ہےلیکن اگر ہم پچھلی دہائی کے اعدادوشمار  پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ موسم کی انتہائی سختی ، کم ہوتی ہوئی زراعت ، سمندری کٹاؤ ،  خشک سالی  اور سیلاب کے باعث  پاکستان میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے۔ گویا سیلاب ، خشک سالی ، بارش میں کمی اور گرمی کی لہر جیسی آفات کے سلسلے میں گذشتہ دہائی کو پاکستان کے لئے بدترین دور کہا جا سکتا ہے ۔ کیونکہ صرف 2010کے سیلاب میں تقریبًا بیس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوگئے تھے-  ان بے گھر ہونے والے افراد نے دیہی علاقوں سے بڑے شہروں میں نقل مکانی کو ترجیح دی اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ان میں سے ستر فیصد گھرانےاپنے آبائی علاقوں میں واپس نہیں گئے اورمستقل طور پر بڑے شہروں میں آباد ہوگئے کیونکہ ان کے آبائی علاقوں میں ان کےگھراور کھیت مکمل  تباہی  کا شکار ہوچکے تھے۔

عالمی ماحولیاتی خطرہ ااشاریہ کےمطابق  2020 میں موسمیاتی تبدیلیوں کےشکار ممالک کی فہرست میں پاکستان کو  پانچویں نمبر پر رکھا گیا تھاجبکہ حقیقت یہ ہے کہ خطرے کے اعتبار سے ہم پہلے نمبر پر ہیں- اعداد و شمار سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حکومت  وقت ، پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے درپیش چیلنجوں اور خطرات سے نمٹنے کے لئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کررہی ہے جس کی بدولت  دیہی آبادیوں اور شہری پسماندہ طبقات  کے لئے خطرہ بڑھتا جارہا ہے اور وہ مختلف طرح کے خدشات سے دوچار ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی بدولت خاندانوں کی   نقل مکانی  خطرناک صورتحال اختیار کرتی نظر آرہی ہے جسکے اثرات چاروں صوبوں یعنی سندھ ، پنجاب ، خیبر پختونخواہ  ، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے خطے میں  دیکھے جاسکتے ہیں ۔ماہرین کے مطابق  "پاکستان کی تقریبا  پچاس فی صد  آبادی  موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے غیر محفوظ  ہوتی جارہی ہے" جس سے مستقبل قریب میں  بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی لہر دوڑ سکتی ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے وہ علاقے زیادہ خطرے سے دوچار ہیں جن کا  انحصار مکمل طور پر زراعت اور گلہ بانی پر ہےکیونکہ یہ دونوں پیشے  براہ راست  موسم پر منحصر ہیں۔  اس وقت صورتحال یہ ہے کہ گرمیوں کے موسم کا طویل دورانیہ ، خشک سالی ، بارشوں میں کمی ، موسم کی سختی اور گرمی کی  شدید لہر ایک عام معمول بنتا جارہا ہے جس سے مقامی معیشت اور آبادیات کو نقصان پہنچ رہاہے۔

سندھ کی مقامی آبادی کی نقل مکانی کی ایک بڑی وجہ دریائے سندھ کا انحطاط پذیر  ڈیلٹا یا دوسرے الفاظ میں سمندری کٹاؤ ہے – پہلے ڈیلٹا کی بات کی جائے  کہ  ڈیلٹا ہوتا کیا ہے؟ جب دریا  بہت تیزی سے سمندر میں گرتا ہے تو اپنے پیچھے زرخیز مٹی چھوڑ جاتا ہے جو زرخیز مثلث زمین تشکیل دیتی ہے- کوئی بھی دریا جس جگہ سمندر میں گرتا ہے اُس قطعہ اراضی کو ڈیلٹا کہا جاتا ہے۔ دریائے سندھ تقریباً تین ہزار کلومیٹر کا طویل سفر طے کر کے سندھ کے ضلعے ٹھٹھہ میں بحیرہ عرب سے ملتا ہے- سمندر میں گرنے سے پہلے دریائے سندھ 17 کھاڑیوں میں بٹ کر وسیع علاقے میں پھیل جاتا ہے۔ دریائے سندھ کا ڈیلٹا دنیا کے پانچویں بڑے ڈیلٹا کا اعزاز رکھتا ہے جب کہ  مینگرووز کے جنگلات کے لحاظ سے یہ ساتویں نمبر پر ہے-



موسمیاتی تبدیلیاں اور  بدتر ین حکمت عملی پاکستان کےدریائے سندھ کے   ڈیلٹا پر تباہی مچا رہی ہیں۔  ہمالیہ سے شروع ہوکر بحیرہ عرب کی طرف بہتا   ہوا دریائے سندھ  کاشتکاری اور ماہی گیری  سے تعلق رکھنے والے طبقات کے لیے زندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن اب یہ ڈیلٹا سست موت سے دوچار ہے کیونکہ آب پاشی اور بجلی کے لئے ڈیموں کی تعمیر سے پانی کی فراہمی کا بہت بڑا حصہ ختم ہوگیا ہے۔جسکے  نتیجے میں اس کی 17 بڑی کھا ڑیاں خشک ہو رہی ہیں اور سمندر سے نمکین پانی مستقل طور پر بیسن میں داخل ہورہا ہے۔ دریائے سندھ کا   ڈیلٹا بحیرہ عرب کے ساتھ تقریبا  150 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے ، جو پاکستان کی ساحلی پٹی کا ایک اہم حصہ شمار کیا جاتا  ہے۔ یہ زیادہ تر صوبہ سندھ کے اندر بدین اور ٹھٹھہ اضلاع میں واقع ہے ، اور ملک کے مینگروو کےجنگلات  کا ستانوے  فی صد حصہ  یہیں واقع ہے۔لیکن خشک ہونے والی کھاڑیاں اور بڑھتی ہوئی نمکینی ان جنگلات کو ایک سنگین ماحولیاتی تباہی کے لیے ترتیب دے رہی ہے۔ ایک مستقل سمندری کٹاؤ نے پچھلے 40 سالوں میں ٹھٹھہ ، ​​بدین اور سجاول کے ڈھیر سارے دیہاتوں کے علاوہ کئی ایکڑ اراضی پر قبضہ کرلیا ہےاور سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح کی وجہ سے یہ رجحان دن بدن تیز ہوتا جارہا ہے۔

کیونکہ ہم نے  مختلف  ڈیموں اور بیراجوں کی وجہ سے پانی کے فطری بہاؤ کو قید کردیا  یوں دریا کے   ڈیلٹا میں پانی کم سے کم ہوتا چلا گیا۔ جس کی وجہ سے سمندر نے آگے بڑھنا شروع کیا۔دریا میں پانی کم ہوجانے کی بے شمار وجوہات میں اِس پر بننے والے ڈیموں کے علاوہ زراعت کے لئے پانی کا زیادہ سے زیادہ  اور بے جا استعمال بھی شامل ہیں۔  اس وقت حالت یہ ہے کہ دریا ئے سندھ کے آخری حصے میں پانی کی مقدار اتنی کم ہو چکی ہے کہ اُلٹا سمندر کا پانی واپس دریائے سندھ  میں آنا شروع ہو گیا  جس کے باعث ماضی کے زرخیز علاقے کی زراعت مکمل طور پر تباہ ہو گئی  کیونکہ زمین میں نمک کی زیادتی کی وجہ سے  نہ تو پانی پینے کے قابل رہتا ہے  اورنہ ہی  زمین کاشت کے قابل نہیں رہ پاتی ہے۔ زمینی پانی کی سطح بھی کہیں نیچے جا چکی ہے اور پینے کے صاف پانی کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔گزشتہ کئی دہائیوں سے آبی منصوبوں کے باعث دریائے سندھ میں پانی کی شدید قلت، سمندر میں اس کے گرنے کی شرح میں نہایت خطرناک حد تک کمی اور  مینگرووز(تِمر کے ساحلی جنگلات کی )کٹائی کے باعث ڈیلٹا کا ماحولیاتی نظام پہلے ہی انحطاط کا شکار ہے۔ اِس صورتِ حال کے باعث گزشتہ  برسوں کے دوران انڈس ڈیلٹا کے اطراف کے  ہزاروں افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔ جنگلات کی کٹائی، زمینی درجہء حرارت میں  اضافہ  اور صنعتی فضلہ انڈس ڈیلٹا کے علاقے میں نہ صرف پودوں اور  جانوروں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہاں  پربسنے والے انسانوں کی زندگیوں پر بھی بھیا نک  اثرات مرتب کر رہا ہے۔

 

اربن پلانر، ریسرچر کراچی اربن لیب آئی بی اے