فیصلہ ہو چکا ہے اور اس کے نتائج کی شدت اور اسے قابل برداشت بنانے کا انحصار اس حقیقت پر منحصر ہے کہ ان فیصلوں کو کس حد تک اور کیسے قبول کیا جاتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ خوش قسمتی ہے، بدقسمتی یا ستم ظریفی کہ 53 سال بعد ملک ایک بار پھر اس اندھے موڑ پر پہنچ گیا ہے۔
فیصلوں سے پہلے عدالتوں کی قسموں پر بات ہو جائے تو بہتر ہو گا۔ عقیدہ کے اعتبار سے سب سے اہم اور بڑی عدالت اللہ کی ہے، اس کے بعد تاریخ کی عدالت، پھر عوام کی عدالت اور چوتھے نمبر پر قانون یا قاضی کی عدالت آتی ہے۔ ان چار قسم کی عدالتوں میں سے اللہ اور تاریخ کی عدالت کے فیصلے دیر سے آتے ہیں۔ اس کے بعد نمبر عوامی عدالت کا ہے جہاں فیصلے روز روز نہیں ہوتے لیکن ان تینوں عدالتوں کے فیصلے کسی بھی دربار، قانونی یا قاضی کی عدالت میں چیلنج نہیں کیے جا سکتے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس کسی نے بھی یہ کام کیا، مطلب عوام کی عدالت کے فیصلوں کو چیلنج یا رد کیا انہوں نے تباہ کن نتائج کا سامنا کیا۔
عوام کی عدالت کے فیصلوں کی حقانیت اس لئے بھی مسلمہ ہے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا ہی کا درجہ حاصل ہے لہٰذا اکثر و بیش تر اوقات عوام کی عدالت کے فیصلے باقی دو اہم عدالتوں، خصوصاً تاریخ کی عدالت کے فیصلوں کی غمازی کرتے ہیں۔ دنیا میں شاید اکثر اقوام کے پاس آنکھوں دیکھا حال اور تاریخی مثال موجود نہ ہو لیکن ہمارے پاس تو ایک ناقابل تردید اور تلخ حقیقت کی شکل میں موجود ہے۔ بلکہ یہ مثال اتنی تلخ، بدنام زمانہ اور شرمندگی سے بھرپور ہے کہ اس کے کرنے کرانے والے 53 سال بعد بھی ایک لفظ سننا گوارا نہیں کرتے اور آج بھی اسی راستے پر چل رہے ہیں۔
آج کوئی چاہے یا نہیں، کسی کو اچھا لگتا ہے یا برا لیکن عوام کی عدالت نے غالب اکثریت سےعمران خان کے حق میں فیصلہ دیا ہے اور ناصرف فیصلہ دیا ہے بلکہ اس پر ڈٹے بھی ہوئے ہیں۔
یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ کمپنی سرکار کی سینہ زوری پر مبنی حماقتوں نے عمران خان کی کمزوریوں کو بھی طاقت میں بدل دیا ہے۔ ان کی چیرہ دستیوں اور عمران خان کے عزم و مزاحمت اور نواز و زرداری کی بدنام زمانہ سیاسی سودے بازی نے عمران خان کے کل کے مخالفین اور ناقدین کو بھی ان کی حمایت پر مجبور کر دیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ 8 فروری کے انتخابات نے ایک نئی اور انوکھی تاریخ رقم کی۔ یہ انتخابات ایسی سیاسی فضا میں ہو رہے تھے کہ ایک طرف ناصرف ملک کی چھوٹی بڑی جماعتوں کی اکثریت عمران خان کی مخالفت کے ایجنڈے پر انتخابات لڑ رہی تھی بلکہ ریاستی مشینری کے کل پرزے بھی ان کے خلاف بر سر پیکار تھے۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
لیڈر جیل میں، دوسرے تیسرے درجے کے رہنما یا جیلوں میں یا روپوش، سینکڑوں ہزاروں کارکنان گرفتار تھے، پارٹی کا نام و نشان ان سے چھین لیا گیا تھا، جتنے امیدوار اتنے انتخابی نشان، بعض اُمیدواروں کا تعلق حلقہ نیابت سے تھا ہی نہیں اور بعضوں کے نام انتخابات سے پہلے خود مقامی سینئر عہدیداروں اور کارکنان نے پہلی دفعہ سنے تھے۔ ہر حلقے سے کم از کم آدھ درجن امیدوار اپنا تعلق عمران خان اور پی ٹی آئی سے جوڑتے تھے۔ نہ کوئی انتخابی مہم، نہ جلسہ جلوس لیکن پہاڑ کی چوٹی پر رہنے والے ایک عام ان پڑھ ووٹر نے خود یہ معلوم کیا تھا کہ عمران خان کا منظور شدہ اور حمایت یافتہ امیدوار کون ہے اور اس کا انتخابی نشان کیا ہے۔
1988 سے 2024 تک اپنے گاؤں میں پولنگ ڈے کے مشاہدے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ وہ گھرانے جس کے مرد بھی کسی کو ووٹ نہیں ڈالتے تھے اس دفعہ گھر کی خواتین کو بھی اپنی ذاتی گاڑیوں میں بٹھا کر پولنگ سٹیشنز تک ووٹ ڈالنے کیلئے لے آئے تھے اور ایجنڈے پر بس ایک ہی نکتہ تھا کہ عمران خان کو جیل سے نکالنا ہے۔
لیکن بھائی لوگ آج بھی 9 مئی، فلاں کیس اور ڈھینگ کیس کا منتر لے کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ او بھائی سیاسی کیسوں کے فیصلے بھی سیاسی ہوتے ہیں اور فیصلہ قوم نے 8 فروری کو سنا دیا ہے۔ اس کے بعد آپ لوگ جو بھی کر رہے ہیں وہ صرف اس قوم و ملک کی تباہی کے حجم اور شدت کو بڑھا رہا ہے۔
اگر دیوار پر لکھا آپ دیکھنا اور پڑھنا چاہتے تو 9 فروری اس کے لئے موزوں دن تھا لیکن اب بھی اتنی دیر نہیں ہوئی۔ آپ کی اور ملک کی بہتری اسی میں ہے کہ آج ہی عوام کی عدالت کا فیصلہ مانیں۔ اس کی مزید توہین نہ کیجئے کیونکہ 8 فروری کے بعد سیاست کی بنیاد پر عمران خان کے خلاف سنائے گئے کسی بھی فیصلے کی قیمت اس عدالت کو عوام اور تاریخ کی عدالت میں ادا کرنی ہو گی۔
صاحب آپ کو 1971 والی بات تو بہت ناگوار گزرتی ہے لیکن شاید آج کے حالات 71 سے زیادہ نازک اور غیر یقینی ہیں۔ 71 کے المیہ کے بعد مغرب اور نام نہاد امت مسلمہ آپ کو سنبھالنے کیلئے پہنچ گئے تھے کیونکہ آگے آپ سے سوویت یونین کے خلاف اہم کام لینا تھا اور اس کیلئے جنرل ضیاء کا کالا مارشل لاء اور کالے کرتوت بھی قابل قبول تھے لیکن آج کل کے بین الاقوامی اور خطے کے سیاسی و تزویراتی حالات و معاملات ایسے ہیں کہ آپ کیلئے سمت اور اتحادی کا کھل کر انتخاب کرنا بھی مشکل ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ جیب میں پیسہ نہیں، عوام ساتھ نہیں اور منتخب حکومت کسی کام کی نہیں تو جناب ارادہ کیا ہے؟
ہاں جاتے جاتے دو باتیں مزید بتاتا چلوں! جناب، ایک تو جو روز روز آپ قوم کو یہ احسان جتاتے ہیں کہ ملک کی بہتری کیلئے یہ کرتے ہیں اور وہ کرتے ہے، برائے مہربانی آپ وہ کرنا چھوڑ دیں تو یہ ملک بہتری کی طرف جا سکتا ہے۔ 75 سالوں سے ملک اور اس کی بہتری کی راہ میں آپ کے یہ بہتری والے کام ہی حائل ہیں۔ جناب آپ وہی کام کیجئے جس کیلئے آپ کو بھرتی کیا ہے اور جس کی آپ تنخواہ لیتے ہیں۔ پھر دیکھیے گا کہ 75 مہینوں میں یہ ملک کہاں سے کہاں پہنچتا ہے۔
دوسرا یہ کبھی نہ سمجھنا کہ پاکستانی عوام سیاسی لیڈر کو ووٹ دینے نکلتے ہیں لیکن اس کے لئے احتجاج کیلئے نہیں نکل سکتے۔ اس دفعہ آپ کا یہ مفروضہ بھی غلط ثابت ہو سکتا ہے۔ جس دن عوام کا یہ یقین مزید پختہ ہو گیا کہ عمران خان کی مزاحمت نہ وقتی ہے، نہ کرسی کے حصول کیلئے ہے اور نہ ہی وہ نواز شریف کی طرح رسوا کن سودے بازی کرے گا تو پھر عوام آپ کو 8 فروری سے بھی بڑا سرپرائز دے سکتے ہیں۔ کیونکہ عوام کا اس قسم کا اقدام کسی گلیشیئر کے سرکنے جیسا ہوتا ہے جو سرکنے سے پہلے محسوس ہوتا ہے اور نا ہی نظر آتا ہے۔