ذہنوں پر حملہ آور ہو کر بہروپیا چوروں ڈاکوؤں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے

ذہنوں پر حملہ آور ہو کر بہروپیا چوروں ڈاکوؤں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے
راہزن جب راستے پر گھات لگائے آتے جاتے مسافروں کو نقدی و قیمتی سامان سے محروم کر دیتا ہے تو متاثرہ شخص کو راہزن کی شناخت و ادراک میں کوئی مخمصہ یا پیچیدگی پیش نہیں آتی۔ اس مسافر کو یقین ہوتا ہے کہ جس شخص نے اسے راستے میں زبردستی روک کر لوٹا ہے وہ راہزن ہے۔ جب ایک چور چوری کی غرض سے کسی کے گھر میں گھستا ہے اور اگر گھر کے مکین خوش قسمتی سے اسے دھر لیتے ہیں تو مکینوں کو چور کی شناخت و ادراک و پہچان کے بارے میں کوئی کنفیوژن نہیں ہوتی۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ جب گھر کے مکین چور کو رنگے ہاتھوں چوری کرتے ہوئے دھر لیں تو آدھے مکین اس چور کو گھر کا خیر خواہ سمجھنا شروع کر دیں اور آدھے مکین اسے چور سمجھیں۔ چور، راہزن اور ڈکیت کی پہچان آسان ہوتی ہے کیونکہ وہ کسی زیادہ تکلف کے بغیر کھلی کھلی کارروائیاں کرتے ہیں۔ راہزنوں، چوروں اور ڈاکوؤں کی صفات و خصوصیات پر لمبی چوڑی فلسفیانہ و علمی جنگیں نہیں لڑنی پڑتیں۔ چوروں کو ایکسپوژ کرنے کے لیے منطق و استدلال کے گہرے پانیوں میں نہیں اترنا پڑتا، زیادہ سے زیادہ چور کے چہرے سے نقاب اتارنے کی محنت کرنی پڑتی ہے۔

بہروپیے کا معامله کافی ٹیڑھا ہوتا ہے۔ بہروپیا بھیس بدل کر دستک دے کر گھر کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوتا ہے۔ وہ گھر کے مکینوں کو اپنی باتوں کے جال میں پھنسا کر گھر کا صفایا فوری طور پر یا آہستہ آہستہ کر جاتا ہے۔ بہروپیا چوروں کی طرح کھلے کھلے طور پر واردات نہیں کرتا، اس باعث بہروپیے کے بہروپ کی حقیقت پانا آسان نہیں ہوتا۔ جب بہروپیا اپنی لچھے دار باتوں کے جال میں لوگوں کو ٹریپ کر رہا ہوتا ہے تو گھر کے کچھ افراد اس کو خیر خواہ اور سچا سمجھ رہے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ اس کو جھوٹا اور فریبی سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ غرض بہروپیے کی شناخت پر لوگ منقسم رہتے ہیں جب تک کہ وہ گھر کے مال کا صفایا نہیں کر جاتا اور سونا چاندی لے کر فرار نہیں ہو جاتا۔

بہروپیے کی بھی قسمیں ہوتی ہیں۔ ایسا بہروپیا جو صرف روپے پیسے اور سونے چاندی کو لوٹنے میں دلچسپی رکھتا ہے اسے شناخت کرنا آسان ہوتا ہے۔ بہروپیے کی ایک اور قسم بھی ہوتی ہے جو زیادہ خطرناک، پیچ دار، خم دار اور الجھی ہوئی ہوتی ہے۔ اس ٹائپ کا بہروپیا مال و دولت میں خاص دل چسپی نہیں رکھتا۔ وہ گھر کے مکینوں کے مال پر ہاتھ صاف نہیں کرتا۔ وہ لوگوں کو عملی و عقلی و منطقی طور پر کنگال کر دیتا ہے۔ ذہنوں کو اسیر بناتا ہے اور عقلوں پر قفل چڑھا دیتا ہے۔ وہ خود کو نجات دہندہ و مسیحا کے روپ میں پیش کرتا ہے اور آخر میں لوگوں کی ایک ایک امید نیست و نابود کر کے منظر سے غائب ہو جاتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے مریدوں کو جس تبدیلی کا یقین دلاتا ہے وہ سب خوش کن توقعات و انعامات و ثمرات خس و خاشاک بن کر اڑ جاتے ہیں۔

بہروپیا اپنے مریدوں کو روبوٹ میں تبدیل کر دیتا ہے جس میں صرف ایک ہی پروگرام انسٹال ہوتا ہے کہ ہم حق پر ہیں اور باقی سب باطل قوتیں ہیں۔ بہروپیا اپنی سلطنت میں عقل، منطق، دلیل، تہذیب و شائستگی اور غیر جانب داری کا داخلہ ممنوع قرار دے دیتا ہے۔ اس سلطنت میں داخل ہونے اور یہاں قیام کرنے کا صرف ایک ہی اصول ہوتا ہے یعنی اندھا دھند اطاعت و تقلید و ایمان۔ اگر بہروپیا دن کو رات کہتا ہے تو مریدین بھی رات رات بول اٹھتے ہیں۔ اگر بہروپیا جانور کا گوبر کھانے کو درست اور حفظان صحت کے مطابق قرار دیتا ہے تو مریدین ذوق شوق کے ساتھ شکم گوبر سے بھرنا شروع کر دیتے ہیں۔

اس ٹائپ کا بہروپیا دقیق در دقیق خطرات اور مخفی در مخفی زہروں سے آراستہ ہوتا ہے۔ بہروپیا اس قسم کے بھاشن جھاڑ کر لوگوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے؛ وہ کہتا ہے کہ دیکھو لوگو! تمھاری بستی چوروں، لٹیروں اور راہزنوں کے نشانے پر ہے۔ یہ خبیث ٹولہ تمہارا مال لوٹ کر چلتا بنتا ہے۔ یہ ٹولہ تمہارے پیسوں پر عیش کرتا ہے اور تم لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے ایڑیاں رگڑتے مر جاتے ہو۔ اے لوگو! میری طرف دیکھو، مجھے مال و دولت سے کوئی غرض کوئی لالچ نہیں۔ میں سادہ کپڑے اور چوتے پہنتا ہوں۔ میں اپنی کلائی پر کروڑ ہا کروڑ کی گھڑی بھی نہیں باندھتا اور میری بیرون ملک کھربوں اربوں روپے کی جائیداد بھی نہیں ہے۔ میں صرف چوروں کی قید سے تمہیں آزاد کروانے آیا ہوں۔ اے لوگو! میرے پیچھے چلو کیونکہ میں صاحب کرامات ہوں۔ میں ایسے ایسے کرشمے برپا کروں گا کہ چوروں کی آنکھیں چندھیا جائیں گی اور وہ بھاگ کھڑے ہوں گے۔

بہروپیے کا بھاشن سن کر لوگ سوچنے لگتے ہیں کہ یہ بندہ سادہ کپڑے پہنتا ہے، قیمتی گھڑیاں سونا چاندی اپنے اوپر نہیں چڑھاتا اور نہ ہی چارٹر جہازوں میں سفر کرتا ہے۔ جب بیمار ہوتا ہے تو یورپ، امریکہ کے ہسپتالوں میں علاج بھی نہیں کرواتا وغیرہ وغیرہ۔ لوگ اس کی سادگی اور پیسوں کے لحاظ سے اس کی درویشی سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ بس یہی وہ دیدہ ور ہے جو چمن میں ہزاروں سال بعد پیدا ہوا ہے۔ یہی وہ مسیحا ہے جس کا انتظار یہ بستی مدتوں سے کر رہی تھی۔ کچھ لوگ اس نتیجے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ معلوم ہو جائے کہ جنگل میں شیر نہیں ہے تو کیا جنگل میں بغیر کسی احتیاط و تدبیر و سامان و اسلحہ کے داخل ہونا عقل مندی ہے؟ کیونکہ شیر کے علاوہ بھی تو جنگل میں دوسرے درندے اور سینکڑوں قسم کے خطرات ہو سکتے ہیں۔ تو پھر صرف اس معلومات پر کہ جنگل میں شیر نہیں ہے، منہ اٹھا کر جنگل میں گھس جانا عقل مندی ہے؟

اگر کسی انسان میں بظاہر کوئی خوبی نظر آ رہی ہے تو کیا یہ اس بات کی گارنٹی ہے کہ اس میں کوئی بڑی مخفی و ظاہری برائی نہیں ہو سکتی؟ اگر کسی میں کوئی اچھائی نظر آتی ہے تو اس کا کیا یہ مطلب ہے کہ ہم اپنی عقل و منطق و تجزیے کی صلاحیتوں کو تالا لگا کر اس کے پیچھے بغیر سوال و سوچ و فکر کے اندھا دھند چلنا شروع کر دیں؟ کیا یہ شعور کے جاگنے کی نشانی ہے کہ شیر کی عدم موجودگی کا جشن مناتے ہوئے دوسرے درندوں کا رزق بن جائیں؟

دائروں میں سسکتی بستی مزید دائروں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ دوستوں، خاندانوں، محلوں، شہروں اور اداروں میں گہری لکیریں کھنچ جاتی ہیں۔ بہروپیے کے پیروکار ابہام و وہم کے پیچھے بھاگنے لگتے ہیں۔ بہروپیا جب اپنے اردگرد دائروں کو بنتے دیکھتا ہے تو ان دائروں اور ان لکیروں کو مزید گہرا کرتا چلا جاتا ہے۔ وہ اپنی ذات کو مجسم حق بنا کر پیش کرتا ہے اور مخالفین کو باطل کہتا ہے۔ وہ آئے روز بھاشنوں کے ذریعے لوگوں کو یہ خواب دکھاتا ہے کہ چوروں کے خاتمے کے لیے اس کا وجود ناگزیر ہے۔ وہ قوم کی اجتماعی ترقی و کامیابی کو اپنی ذات کے ساتھ لازم قرار دیتا ہے۔

بہروپیے کا طریقہ واردات مارکیٹنگ تکنیک پر مبنی ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کو وہی شے دینے کا خواب دکھاتا ہے جس کی لوگوں کو اشد ضرورت و تمنا و تڑپ ہوتی ہے۔ بہروپیا یہ بات خوب جانتا ہے کہ چوروں کے نرغے میں پھنسی قوم میں یہ تڑپ شدت سے پائی جاتی ہے کہ کوئی مسیحا ان کی بستی میں کسی روز اترے اور ان کی حالت بدلے۔ بہروپیا اس تڑپ کو عوام کے خلاف استعمال کر کے ان کو پھندے میں پھانس لیتا ہے۔ وہ زخموں سے چور عوام کی کچلی ہوئی عزت نفس پر اپنے تکبر و خود پرستی کا شاندار محل کھڑا کر لیتا ہے۔ وہ آزادی کے نام پر لوگوں کو غلام بنا لیتا ہے۔ وہ اپنی ذات پر تنقید کو حق پر تنقید قرار دیتا ہے۔ وہ اپنی طرف اٹھنے والی انگلی کو شیطانی چال قرار دیتا ہے۔ غرض وہ اپنے مریدوں کے ذہنوں کو چھوٹے سے چوہے دان میں تبدیل کردیتا ہے اور اس چوہے دان میں پیرومرشد کی مدح سرائی و عظمت کے گیت گونجتے رہتے ہیں۔

بہروپیا دانشور، حکیم و صاحب بصیرت لوگ پیدا نہیں کرتا۔ وہ درباری، درباری مسخرے اور چوہے دانی ذہنیت والے بونے پیدا کرتا ہے۔ بہروپیا سوٹڈ بوٹڈ جاہل لوگوں کی کثرت نمایاں کر دیتا ہے۔ جہالت کا تعلق تعلیم و ڈگری کے ساتھ نہیں ہوتا۔ جاہل وہ ہوتا ہے جو شدید قسم کا ظاہر بین ہوتا ہے۔ وہ صرف ظاہر پر ہی نظر رکھتا ہے اور مخفی، غیب و دقیق و باریک امور کو یکسر فراموش کر دیتا ہے۔ اس ٹائپ کا جاہل شخص بہروپیے کے لچھے دار بھاشنوں کو انقلاب اور مریدوں کے وقتی اجتماع کو پیر و مرشد کی سچائی کا نشان سمجھتا ہے۔ کسی کا خالی دعویٰ اس کے سچے ہونے کی دلیل نہیں ہوا کرتا۔ ایک شخص تبھی سچا ہوتا ہے جب اس کے دعوے اور عمل میں زبردست اتفاق پایا جاتا ہے اور اگر دعوے اور عمل میں واضح نفاق پایا جائے تو ایسے پیر کو ہم منافق، جھوٹا اور فریبی کہتے ہیں۔

سچے آدمی کا عمل بولتا ہے۔ سچا آدمی جب منہ سے اپنی صلاحیتوں و استعداد کار و قوتوں کا اظہار کرتا ہے تو عمل کے میدان میں بھی ان صلاحیتوں، قوتوں کا بھرپور مظاہرہ کرتا ہے۔ جب سچا آدمی بازار میں مجمع کے سامنے یہ اعلان کرتا ہے کہ میری جیب سونے اور چاندی کے سکوں سے بھری پڑی ہے تو وہ جیب سے سکوں کو نکال کر دکھاتا بھی ہے جبکہ بہروپیا بے کار دھات کے ٹکڑوں کی چھنکار سنا کر لوگوں کو بے وقوف بناتا ہے کہ اس کی جیب میں قیمتی سکے ہیں اور یوں جاہل لوگ چھنکار پر ہی مر مٹتے ہیں۔ بہروپیا لوگوں کی عقلوں کو موٹا کر دیتا ہے اور موٹی عقل باریک حقیقتوں تک نہیں پہنچ سکتی۔

اس طرز کا بہروپیا چوروں، راہزنوں اور ڈاکوؤں سے زیادہ مہلک ہوتا ہے۔ چوروں وغیرہ کا بھید جلد کھل جاتا ہے۔ چوروں کی وارداتیں جلد نظروں میں آ جاتی ہیں۔ بہروپیا شاطر ہوتا ہے۔ وہ مخفی و باریک واردات کرنے میں ماہر ہوتا ہے۔ چور دوسروں کی جیب پر ہاتھ صاف کرتا ہے جبکہ بہروپیا ذہن پر چوٹ مارتا ہے۔ اگر جیب خالی ہو جائے تو جلد دوبارہ بھر سکتی ہے لیکن جب علم، ادراک و عرفان و شعور کے راستے ٹیڑھے ہو جائیں تو پھر آسانی سے سیدھے نہیں ہوتے۔ ایک غلط تشریح، ایک غلط فتویٰ کئی نسلیں کھا جاتا ہے۔ بہروپیا لوگوں سے منطق، دلیل، سوال، تنقید اور باریکیوں میں جانے کی صلاحیت چھین لیتا ہے۔ بہروپیا دھیرے دھیرے اپنے پرستاروں کو zombies میں تبدیل کر دیتا ہے جو صرف دوسروں کو کاٹنا جانتے ہیں۔ ان کا ذہن خالی بھاں بھاں کر رہا ہوتا ہے۔ ان کی فکری و ذہنی صلاحتیں اس قدر مفلوج ہو گئی ہوتی ہیں کہ جب بہروپیے کی اصلیت سامنے آنے لگتی ہے تب بھی وہ اسی بھرم میں رہتے ہیں کہ ہمارا پیر سچا ہے۔