پلاسٹک کے تھیلوں پر پابندی: ’مصنوعی اقدامات سے کچھ نہیں ہو گا‘

پلاسٹک کے تھیلوں پر پابندی: ’مصنوعی اقدامات سے کچھ نہیں ہو گا‘
ماحولیات کے تحفظ کے لیے زندگی کے معاملات میں صحت مند اور environment friendly تبدیلی لانے کا بڑا چرچا ہے۔ آئے روز ہم میوٹیویشنل وڈیوز دیکھتے ہیں۔ پلاسٹک کے تھیلوں پر پابندی لگائی جا رہی ہے یا کوئی سوشل ایکٹوسٹ ان کا استعمال ترک کرنے کا اعلان کرتا ہے۔ ساحلوں پر، نالوں میں، دریاؤں میں پلاسٹک کی خالی بوتلوں کے ڈھیر دکھا کر دہلایا جاتا ہے، ساحل پر مردہ پائی گئی و ہیل کا معدہ پلاسٹک کی بوتلوں سے بھرا ہوا پایا جاتا ہے۔ پلاسٹک کے برتنوں کے نقصانات کا تذکرہ ہوتا ہے۔

تاثر یہی دیا جاتا ہے کہ زمین پر پلاسٹک کے ڈھیر میں اضافے میں عام صارف اور عام فرد کا اصل ہاتھ ہے اور تبدیلی اسی عام آدمی  کی عادت و اطوار بدلنے سے آئے گی۔

اثر تو ہم پر بھی ہوا۔ پلاسٹک کے تھیلے لانا بند کر دیے۔ گھر میں موجود پلاسٹک کے برتن آہستہ آہستہ ضائع کردیے اور کسی بھی نئی شے کو خریدتے ہوئے خیال کیا کہ پلاسٹک کا متبادل ہو۔

حیاتیاتی (organic) کچرے ،ری سائیکل ایبل مٹیریل اور دوسرے کچرے کے لیے الگ الگ بنز بنائے اور گھر والوں کو ان کے استعمال پر مجبور کرنے کے لیے پاپڑ بیلے۔ ڈسپوزیبل پلیٹس کی جگہ دوبارہ عام پلیٹیں اور سفر اور کیمپنگ کے لیے پہلے کی خرید گئی پلاسٹک کی پلیٹیں مختص کردہ گئیں۔ تھوڑی بہت تبدیلی آنی محسوس ہوئی۔ اور ظاہر ہے کہ خوشی بھی ہوئی۔ ان ساری کوششوں کو  دو برس سے تو زیادہ ہی ہوگئے ہیں۔

خیر کے چھوٹے کاموں پر عوام کو آمادہ کرنا اچھی بات ہے مگر ماحولیاتی آلودگی کے اصل ذمہ دار عفریتوں پر بات نہ کرنا یا ان کے خلاف آواز نہ اٹھانا اور یہ باور کروانا کہ بس عوام کے کرنے سے بہت بڑا کام ہو رہا ہے، نرم سے نرم الفاظ میں بھی بڑی سادگی ہے اور ذرا کھل کر کہیں تو احمقوں کی جنت میں مست مگن رہنے کے مترادف ہے۔

حکومتی ذمہ داران سے لیکر انسپریشںنل کانٹینٹ بنانے والوں تک نے کبھی فاسٹ فوڈ انڈسٹری کو لگام ڈالنے پر بات نہیں کی۔

جب میں اپنے گھر میں دو پلاسٹک کے تھیلوں اور چار ڈسپوزیبل پلیٹوں کے استعمال سے روکنے کے لیے سر توڑ کوششیں کرنے کے بعد شہد کی مکھیوں کی طرح پھیلے فاسٹ فوڈ ریستورانوں، کیفوں، اور اسٹورز میں طویل قطاروں میں کھڑے ہر شخص کو ایک ڈسپوزیبل چائے کے کپ، اس پر لگے پلاسٹک کے ڈھکن، اس میں اڑسی ہوئی پلاسٹک کی اسٹرا، دوسرے ہاتھ میں کاغذ یا پلاسٹک کے لفافے میں گتے کے ڈبے میں فاسٹ فوڈ، پلاسٹک کی ڈسپوزیبل کٹلری، ساتھ پلاسٹک کی  دیدہ زیب کٹوری میں کچھ ساسز اور چٹنیوں اور ساتھ پلاسٹک کی پیکنگ میں کیچپ اور چلی ساس سے لیس جاتے دیکھتی ہوں تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ اونٹ نگل کر مچھر چھاننے والے لوگ معصوم اور ارتھ فرینڈلی ہونے کا ڈرامہ کیسے کر لیتے ہیں۔

ایسے ریستورانوں اور کیفوں سے نکلنے والے ہرشخص کے ہاتھ میں ایک ننھا سا ڈسپوزیبل کچن موجود ہوتا ہے اور کئی لوگ دن میں ایک سے زیادہ مرتبہ ان اسٹورز کے چکر لگاتے ہیں جہاں ہر چیز ڈسپوزیبل کنٹینرز میں ملتی ہے۔

کچھ دہائیوں پہلے حضرت انسان نے یہ سوچا بھی نہ ہو گا کہ زمین سے پھوٹتے اور آسمان سے برستے پانی کو خرید کر پینا پڑے گا۔ ترقی یافتہ ممالک میں پانی کی ان چھوٹی سی بوتلوں کا استعمال بہت عام ہے۔ کانفرنسوں ، حکومتی عہدیداران کی میٹنگز ، میلوں، بازاروں، دعوتوں میں جگ یا صراحی میں پانی پیش کرنے کی روایت معدوم ہوتی جارہی ہے۔

منتظمین پانی کی بوتلیں لا کر رکھ دیتے ہیں اور ماحولیاتی آلودگی کے خلاف تقریریں کرنے والے بھی گلہ خشک ہونے پر انہی بوتلوں سے منہ لگا کر حلق تر کر لیتے ہیں۔

صاحبو! وہیل کے معدے کو پلاسٹک کی ان بوتلوں سے بچانے کے لیے صرف ساحلوں کی صفائی اور بوتلوں کو ٹھکانے لگانے کا انتظام کافی نہیں، ان بوتلوں کی پیداوار پر پابندی لگائیے اور لوگوں کو سمجھائیے کہ کھلے جگ سے پانی پی کر تو انسان نے اس زمین پر بیماریوں سے بچ کر ہزاروں سال نکال ہی لیے مگر اپکی ان سوفیسٹیکٹڈ پلاسٹک کی بوتلوں نے چند سالوں میں سمندری و ارضی حیات کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا۔

پلاسٹک کے تھیلوں پر پابندی  جیسے نمائشی اقدامات کے بجائے سمندروں میں چلنے والے تفریحی شہروں یعنی کروزز پر چیک لگائیے جو سمندری حیات کو بری طرح تباہ کر رہے ہیں۔

انٹرٹینمنٹ انڈسٹری نے رقم کمانے کا ایک اور نایاب طریقہ ڈھونڈا ہے۔ ہر کامیاب فلم کے کرداروں کی تصویریں لیے پلاسٹک کے بے شمار کھلونے، اور عام استعمال کی اشیاء سے اسٹور بھرے پڑے ہیں۔

سمندروں میں وہیل واچنگ اور دوسرے واٹر اسپورٹس کے لیے چلنے والی مختلف اقسام کی کشتیوں سے سمندری حیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔

امریکہ کینیڈا سمیت ترقی یافتہ ممالک دوسرے ممالک کو بغیر کسی شرم و حیا کے مسلسل مہلک ہتھیار فروخت کیے جارہے ہیں جن  کا بے محابہ استعمال انسانوں کو براہ راست ہی نہیں بلواسطہ بھی قتل کررہا ہے۔

بات یہ ہے کہ میں نے تو اب ان شاءاللہ صحت مند طور طریقوں کا استعمال ترک نہیں کرنا اور آپ بھی ضرور ماحولیاتی آلودگی کے خلاف اپنا ننھا سا جہاد ضرور جاری رکھیے کہ ہم سے تو خدا اپنی عطا کی گئی اس خوبصورت زمین کی تباہی میں خود ہمارے کردار کا سوال کرے گا۔مگر ماحولیاتی آلودگی پر نمائشی اقدامات کرنے والے بااختیار لوگوں کی چکنی چپڑی باتوں اور مگر مچھ کے آنسوؤں پر نہ جائیے جو بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ اس لیے نہیں ڈالتے کہ ان کا اپنا مفاد بھی ان کی حرکتوں سے وابستہ ہے اور یہ بھی ہے کہ اصل مجرموں کو روکنا ضروری تو ہے مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ!

مصنفہ طب اور نفسیات کی طالبہ، کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں اور کمیونیٹی ورک میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ اردو اور انگریزی ادب سے خاص لگاؤ ہے، چھوٹی عمر سے میگزینز میں لکھ رہی ہیں۔