اقتدار کی جنگ ہے،امید سحر نہیں ہے

اقتدار کی جنگ ہے،امید سحر نہیں ہے
ملک نظریات ،فکری سمت اور آئین کی بالادستی سے ترقی کرتے ہیں ۔وطن پاک میں اقتدار میں رہنے والی سیاسی جماعتوں اور غیر منتخب قوتوں نے ہمیشہ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی سے کام چلانے کی کوشش کی ہے۔موجودہ حکومت بھی سابقین کے نقش قدم پر کسی فکر،سیاسی و معاشی نظام اور نظریات کی بجائے این جی اوز کی طرز پر پراجیکٹ بناکر عوام کو لالی پاپ دینے میں مصروف کار ہے۔جس کے نتائج  جنرل پرویز مشرف کی غیرآئینی اور غیرقانونی حکومت سمیت نواز شریف اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں سے مختلف برآمد نہیں ہونگے۔حکمران جماعت اور ان کے اتحادیوں کی اب تک کی دوسالہ کارکردگی اس امر کا بین ثبوت ہے کہ حکومت کیا کررہی ہے۔ یہ کوئی پہلی حکومت نہیں ہے۔جس کو ناہل ،کرپٹ اور عوام دشمن قرار دیا جارہا ہے۔اقتدار سے باہر رہ جانے والے اقتدار کے پجاریوں کا ہر حکومت کے بارے میں یہی رویہ ہوتا ہے۔
عمران خان کی ناہل ،ناتجربہ کار اور عوام دشمن حکومت کےخلاف اقتدار سے باہر جماعتوں اور سیاسی لیڈروں نے احتجاجی تحریک پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے شروع کی ہے۔تحریک کے بڑے آگو میاں محمد نواز شریف ہیں جو تین بار ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں ۔دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی ہے جو موجودہ پاکستان کی بانی جماعت ہے۔

آج پاکستان کی سالمیت سمیت ملکی عوام کو آئینی ،سیاسی سماجی اور شخصی جو بھی حقوق حاصل ہیں  ان کی بنیاد قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی اور پاکستان کو بین الاقوامی برادری میں باوقار حیثیت سے کھڑا کیا۔قائد عوام کے نظریات ،افکار ،جدوجہد کو بھٹو ازم سے یاد کیا جاتا ہے۔افسوس کہ آج کی پیپلزپارٹی بھٹوازم سے خالی ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کی سمت یکسر بدل چکی ہے۔یعنی ان تلوں میں اب تیل نہیں رہا ہے۔
اے پی سی زدہ یہ سیاسی جتھہ حکمران طبقے سے ہے۔عوام اس سیاسی جتھے کے ماضی سے مکمل طور پر باخبر ہیں ۔میڈیا کے پھیلاؤ نے تمام تر پہلوعوام کے سامنے بے نقاب کردیئے ہیں ۔سیاسی جماعتوں کا بھرم بھی واضع ہوچکا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔مولانا فضل رحمن ،بلاول ،مریم نواز جانچ کر چکے ہیں ۔اگر یہ سیاسی جتھہ ملک وقوم سے مخلص ہے ۔یقینی طور ملک و قوم سے مخلص ہے تو انہیں اپنی اپنی  سیاسی جماعتوں کے اندر کام کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔
سیاست کا اشتہار کافی نہیں ہوتا ہے۔جس طرح جماعت اسلامی پچھلے سو سال سے زائد عرصہ سے اسلامی نظام کا اشتہار چلا رہی ہے۔ سیاست کیا ہوتی ہے۔سیاسی نظام کیا ہوتا ہے۔سماجی و معاشی نظام کیا ہے۔جمہوریت اور دیگر سیاسی ،سماجی اور انسانی اخلاقیات کیا ہیں۔آئین و قانون کی اہمیت و افادیت ،قومی اداروں اور سیاسی جماعتوں کا کر دار کیا ہے اور کیا ہونا چاہیئےاور دیگر پہلوؤں پر مکمل جانکاری اور آگاہی فراہم کرنا سیاسی جماعتوں کا اولین فریضہ ہے۔
 سیاسی جماعتوں نے بدقسمتی سے اپنا حقیقی فریضہ ادا کرنے کی بجائے اقتدار کی لڑائی کو محض سیاست بنالیا ہے۔مخالف سیاسی دھڑوں کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا اور گالم گلوچ  سیاسی قابلیت اور افکار دشنام ٹھہرے ہیں۔ کارکنان کی سیاسی تربیت اسی نہج پر ہوتی ہے۔جو زیادہ گلا پھاڑ کر گالم گلوچ کرتا ہے ۔وہ شیر ہے یا ٹائیگر ہے۔یہ جنون ،سونامی اور چیتوں کی کیڈر بلڈنگ نے سیاسی جماعتوں کے اندر انسانی خلاقیات کو ختم کر کے حیوانیت کو فروغ دیا ہے۔
72 سال گزرنے کے بعد بطور ملک اور قوم ہم نے پچھے کی جانب سفر کیا ہے۔ملکی اداروں کی مداخلت کےخلاف اور جمہوریت کی پائیداری کےنام پر ایک 74 سالہ بوڑھا اپنی آخری اننگز بھی ملک وقوم کو تصادم میں دھکیلنے کے لئے کھیلنے کو نکل کھڑا ہوا ہے۔جس کے پاس تربیت یافتہ سیاسی فورس ہے اور نہ نئے نظام کی فکر ہے۔بدقسمت عوام کو پھر آگ کی نذر کیا جائے گا۔یہ امید سحر نہیں ہے۔حکمرانوں کی حکمرانوں سے اقتدار کی جنگ ہے۔










































































مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔