سینئر صحافی اور تجزیہ کار افتخار احمد نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر آرٹیکل 5 کو استعمال کرکے بڑی غلطی کر دی گئی۔ یہ کوئی اور چیز استعمال کر لیتے لیکن یہ کسی صورت نہ کرتے۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں ملک کی سیاسی صورتحال اور سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے لکھا ہوا آرڈر پڑھا جس پر سپیکر اسد قیصر کا نام درج تھا، جسے بے دھیانی میں وہ پڑھ گئے۔ اس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ کون کیا کر رہا ہے۔ شک ہمیشہ رہے گا کہ اس معاملے کے پیچھے آخر کون تھا جو عمران خان کو مشورے دے رہا تھا کیونکہ ہم بار بار ڈسے ہوئے لوگ ہیں۔
تاہم افتخار احمد نے کہا کہ لیکن کیا یہ ممکن نہیں کہ بہار کے موسم میں ہی بہار آ جائے۔ مجھے اس بات کی قوی امید ہے۔ جونیجو والے معاملے میں مسئلہ تھوڑا مختلف تھا، وہاں پر 199 لوگوں کو غدار قرار نہیں دیا گیا تھا۔ اگر سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو مان لیا تو یہ 199 سیاستدان کبھی الیکشن نہیں لڑ سکیں گے۔ یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ اس پر عدالت کو فیصلہ کرنا ہوگا۔
پنجاب کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ چیز بہت ہی افسوسناک ہے۔ یہ جمہوریت اور اس کی روایات کیخلاف ہے۔ پنجاب اسمبلی کو تالے لگا دینا کسی صورت مناسب نہیں ہے۔ اگر شکست ہے تو اسے بہادروں کی طرح قبول کرنا چاہیے
روس کے بیان پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے خطے میں بہت کچھ نیا ہو رہا ہے۔ میں روس کے عمران خان کے حق میں بیان کو بڑی سنجیدگی سے لے رہا ہوں۔ روس کی جانب سے امریکا کے رویے اور پاکستانی سیاست کے بارے میں جن خدشات کا اظہار کیا گیا کہ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال پر شدید خدشات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر صرف 11 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ روپے کی در روز بروز گر رہی ہے۔ ڈالر کی قیمت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ پاکستانی مارکیٹ میں آج ڈالر 187 روپے پر ٹریڈ ہوا۔ ہمیں ان معاملات پر سنجیدگی کیساتھ سوچنے کی ضرورت ہے۔ مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں ملک میں جاری سیاسی کشیدگی انارکی کی جانب نہ لے جائے۔ جو سیاستدان بڑھ چڑھ کر باتیں کر رہے ہیں، کیا ان کے پاس ملک کو درست سمت میں لے جانے اور معیشت کی بحالی کیلئے کوئی روڈ میپ ہے بھی یا نہیں، ہمیں دعوے کرنے والوں سے پوچھنا چاہیے۔
مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ اگر عدالت کے سامنے قتل بھی ہوا ہو تو اس کے باوجود اسے جوڈیشل پروسیجر کو فالو کرنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہی کوئی نہ کوئی فیصلہ جاری کیا جاتا ہے۔ لہذا میں اس معاملے میں قطعی یہ نہیں سمجھتا کہ عدالت نے کسی تاخیر سے کام لیا بلکہ کافی تیزی سے اسے نمٹانے کی کوشش کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کیلئے یہ بڑا اچھا موقع ہے کہ وہ اپنے پرانے کپڑے دھوئے اور نئی صبح کا آغاز کرے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر انہوں نے نہ کرنا ہوتا تو ازخود نوٹس لینے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
اعزاز سید نے کہا کہ اس وقت پورے پاکستان کی نظریں سپریم کورٹ کی جانب لگی ہوئی ہیں۔ توقع کی جا رہی تھی جس طرح سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر ازخود نوٹس لیا، اس لئے وہ جلد از جلد اس پر اپنا کوئی فیصلہ جاری کرے گی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس معاملے پر طویل سماعتوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ ابھی تک پتا نہیں چل رہا کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ کبھی لگتا ہے کہ معزز جج صاحبان اس غیر آئینی اقدام کو کالعدم قرار دیں گے تو کبھی لگتا ہے کہ عوام کے پاس جانے کا کہا جائے گا۔ اسلام آباد میں یہ باتیں زیر گردش ہیں کہ اس معاملے میں اٹارنی جنرل کی ایک عدالتی شخصیت کیساتھ ملاقات ہوئی تھی۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ ٹپ ہی ادھر سے آئی تھی یا ان کو اعتماد میں لے کر ہی یہ سارا معاملہ کیا گیا تھا۔