Get Alerts

میجر جنرل (ر) اعجاز اعوان اور کنال کامرا کے ماما جی

میجر جنرل (ر) اعجاز اعوان اور کنال کامرا کے ماما جی
بھارتی کامیڈین کنال کامرا شاید اس وقت سیاسی مزاح میں دیکھا جائے تو بھارت کا نمبر ون کامیڈین ہے۔ یہ مودی جی کی مکاری اور ان کے BJP مداحوں کی سادگی کا اس باریک بینی سے جائزہ لے چکا ہے کہ آپ کو غور سے دیکھنے پر لگے گا گویا آپ کسی BJP سپورٹر سے پہلے بالکل یہی باتیں سن چکے ہیں۔ یہ تجربہ اس نے کہیں دور جا کر نہیں بلکہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو دیکھ کر حاصل کیا ہے۔ اپنے ماما جی، اپنی ماں کی باتیں سن کر، ان کے واٹس ایپ پر آنے والے پیغامات دیکھ کر یہ انہی میں سے مزاح تراشتا ہے، اور دیکھنے، سننے والے کو لگتا ہے جیسے اس کے گھر، اس کے ماما جی کی ہی بات ہو رہی ہو۔

کامرا کی کامیڈی میں مودی جی کے ان کے مداحوں کا خاص طور پر مذاق اڑانے کا اہتمام کیا جاتا ہے جو ذرا 50، 60 کے پیٹے میں ہوں۔ یہ وہ عوام ہیں جنہوں نے اپنی جوانی میں سوشل میڈیا دیکھا نہیں تھا۔ بڑھاپے کے پیار کی طرح واٹس ایپ نے ان کی آنکھوں پر ایسی پٹی باندھ رکھی ہے کہ یہ اپنے ارد گرد کے حقائق پر نظر ڈالنے سے مکمل طور پر قاصر ہیں۔ یہ نوجوانوں کو بھارت کے سسٹم پر تنقید کرتا دیکھ کر انہیں پاکستان چلے جانے کا مشورہ دیتے ہیں، مسلمانوں سے ان کو خصوصی طور پر نفرت ہے، مودی جی ان کے نزدیک ایک نیتا ہی نہیں، پہلوان بھی ہیں جن کی بہادری پر انہیں بڑا ناز ہے۔ اور یہ بھارت کے کسی مسئلے پر ٹھنڈے دل سے سوچنے کی شکتی سے ہی آری ہیں۔ ان کے نزدیک ہر برائی کی جڑ مسلمان اور پاکستان ہیں، اور ہر مصیبت کا حل مودی جی۔

اب آپ ذرا سرحد کے اس پار آ جائیں اور انگریزی میں جس چیز کو ہم role reverse کرنا کہتے ہیں، وہ کر کے دیکھیے۔ آپ کے ماما جی (چلیے چاچا جی کر لیجئے) بھی آپ کو اسی قسم کی باتیں کرتے نظر آئیں گے۔ فرق صرف اتنا ہوگا کہ ان کے لئے مصیبت کی جڑ بھارت، اسرائیل اور ہندو یا احمدی ہوں گے اور اس سب کا حل عمران خان اور ’ہائبرڈ‘ سرکار کے دوسرے پارٹنر ہوں گے۔

ایسی ہی ایک مثال گذشتہ روز ٹوئٹر پر مجھے میجر جنرل (ر) اعجاز حسین اعوان کے کلپ میں نظر آئی۔ موصوف ندیم ملک کے پروگرام میں ایسی عجیب و غریب باتیں کر رہے تھے کہ ایک لمحے کو تو انسان فکرمند ہو جائے کہ ٹھیک بھی ہیں یا نہیں۔ فرمانے لگے کہ امریکی صدر جو بائیڈن عمران خان سے بات کرنے سے کترا رہے ہیں کیونکہ ان میں اتنی جرأت نہیں ہے۔ ’’جو بائیڈن عمران خان سے بات کرتے ہوئے پکے پیروں پر نہیں کھڑے۔ عمران خان جب بات کرے گا تو وہ نہ صدر مشرف ہے، نہ وہ نواز شریف ہے، نہ گیلانی ہے۔ عمران خان جب بائیڈن سے بات کرے گا تو بات کس چیز پر ہوگی؟ علاقائی امن پر ہوگی نا؟ صرف افغانستان کے زاویے سے تو پاکستان کو نہیں دیکھا جا سکتا‘‘۔

تو گویا جو بائیڈن کو ڈر ہے کہ عمران خان سے بات کی تو وہ کشمیر کا مسئلہ چھیڑ دے گا اور امریکی صدر کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہوگا۔ یاد رہے کہ یہ وہ امریکہ ہے جو عرب ممالک سے بہترین تعلقات کے باوجود پچھلے 73 سال سے مسلسل فلسطین کے حق میں سلامتی کونسل میں اٹھنے والی ہر تحریک کو دباتا رہا ہے۔ اس نے کبھی اخلاقیات کا لحاظ نہیں رکھا۔ لیکن جنرل ساب کا خیال ہے کہ امریکہ کا صدر عمران خان کی اخلاقی قوت کے سامنے ڈھیر ہو جائے گا۔ سبحان اللہ! سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی۔۔۔

ویسے یہ بھی مزے کی بات تھی کہ جنرل ساب بے دھیانی میں مشرف کا نام بھی لے گئے کیونکہ امریکہ کے آگے جیسے جنرل مشرف لیٹے تھے، اس کی مثال یا تو جنرل ضیا ہو سکتے ہیں یا پھر جنرل ایوب خان۔ سیاستدانوں نے کبھی ایسی بزدلی نہیں دکھائی۔ لیکن پھر ندیم ملک نے پوچھ ہی لیا کہ جنرل مشرف صحیح بات نہیں کرتے تھے امریکہ سے؟ تو اعجاز اعوان صاحب نے فرمایا دیکھیں جب مشرف سے بات ہوئی تب تو امریکہ سلامتی کونسل کی قرارداد کے ساتھ آ رہا تھا۔ ندیم ملک نے یاد دلایا کہ سلامتی کونسل کی قرارداد بعد میں آئی تھی، رچرڈ آرمٹیج کے آگے مشرف پہلے ہی لیٹ گئے تھے۔ جنرل صاحب نے جواباً ظاہر ہے آئیں بائیں شائیں کی، درمیان میں قرارداد کا نمبر بھی غلط بول گئے۔ لیکن خیر، وہ تو ہو جاتا ہے۔ شاید جس قرارداد 1337 کی بات وہ کر رہے تھے، وہ بیروت کے کسی ریستوران میں بیٹھ کر پڑھی ہو، دماغ میں وہی رہ گئی۔ لیکن بات جو حیرت میں ڈال دینے والی ہے وہ بہرحال یہی تھی کہ جو بائیڈن بات کرنے سے کترا رہے ہیں ’because he lacks substance‘۔ یہ substance والی بات بھی ہمارے وزیر اعظم کے ماضی (اور کچھ سوتروں کے انوسار حال بھی) کے سیاق و سباق میں دیکھا جائے تو جو بائیڈن واقعی اس عمر میں substance کے زیرِ اثر تو فون کرنے کی غلطی نہیں کریں گے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر بات کنال کامرا سے شروع کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ ویڈیو دیکھیے، خود ہی سمجھ جائیں گے کہ جنرل اعجاز اعوان اور ٹرین میں بیٹھ چکا ہے وہ ابھی۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.