سوشل میڈیا پر خوفناک وائرل ویڈیو کا مکروہ کردار عثمان مرزا کون ہے

سوشل میڈیا پر خوفناک وائرل ویڈیو کا مکروہ کردار عثمان مرزا کون ہے
منگل کی شام پاکستانی سوشل میڈیا اس وقت ششدر رہ گیا جب ایک دل دہلا دینے والی ویڈیو میں ایک لڑکی اور لڑکے کو ایک بھاری بھرکم شخص بری طرح سے پیٹ رہا تھا، ان کے کپڑے کھینچ رہا تھا، لڑکی کو برہنہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا، لڑکے کو مار رہا تھا، اس کے کپڑے اتروا رہا تھا۔ اس کے بعد اس شخص نے لڑکی کے کپڑے اتروائے اور اس کی برہنہ حالت میں ویڈیو بنائی۔ کچھ اکاؤنٹس سے مزید ہولناک اطلاعات بھی دی جا رہی ہیں لیکن ابھی تک ان کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ یہ مناظر اتنے خوفناک تھے کہ سوشل میڈیا پر باقاعدہ لوگ لکھ رہے تھے کہ وہ سہم گئے ہیں۔ درجنوں خواتین کی جانب سے ایسی ٹوئیٹس سامنے آئیں۔ یہ عثمان مرزا کون ہے، کیا کرتا ہے، اس کے بارے میں فی الحال جو کچھ سامنے آیا ہے، وہ پیش کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر لگائی اس کی اپنی پوسٹس سے اتنا تو واضح ہے کہ یہ شخص پراپرٹی کا کاروبار کرتا ہے۔ اسلام آباد سے مستند ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس کے کچھ شو رومز ہیں۔ لیکن ماضی کی ویڈیوز اور اس کی سوشل میڈیا پوسٹس کو دیکھ کر یہ بھی لگتا ہے کہ یہ کوئی عادی مجرم ہے۔ مثال کے طور پر ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس نے بندوقیں اپنے ارد گرد رکھی ہوئی ہیں جن میں سے ایک پر اس کا اپنا نام بھی کندہ ہے۔

https://twitter.com/faisalsubzwari/status/1412497940447379458

ایک اور ویڈیو میں یہ ٹک ٹاک پر اعلان کرتا پایا جا رہا ہے کہ اس کے خلاف کچھ لوگوں نے پولیس میں پرچہ دیا ہے اور شاید اس کی ضمانت اگلے روز منسوخ ہونے جا رہی ہے جس کے بعد چند روز تک یہ جیل میں ہوگا اور اس کا فون نمبر وغیرہ بند ہوگا۔

یہ ویڈیو دیکھیے:

https://twitter.com/aimenb_/status/1412506936713662474

قطع نظر اس کے کہ یہ شخص کون ہے اور کیا کر رہا تھا، یہ تو طے ہے کہ یہ ایک عادی مجرم ہے۔ اس کا ویڈیو میں یہ کہنا کہ 'کچھ کمزور لوگوں نے ہم پر پرچہ کروایا ہے جو ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتے' اس بات کا غماز ہے کہ یہ کوئی بدمعاش ہے جو قانون سے بالا بالا اپنے معاملات چلانے کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ صحتِ جرم سے انکار نہیں کر رہا۔ کہہ رہا ہے کہ پرچہ دینے والے اس کا مقابلہ قانون کے بغیر نہیں کر سکتے۔ یہ بھی امر قابلِ غور ہے کہ یہ ویڈیو 27 مئی کی ہے۔ یہ شخص کیا جیل گیا ہی نہیں یا پھر اتنی جلدی باہر آ گیا؟ پاکستان میں قانون کو اپنے حق میں استعمال کرنا، توڑنا مروڑنا، اپنے تعلقات استعمال کر کے پولیس اور قانون کے لمبے ہاتھوں کو باندھ دینا کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔

سب سے افسوسناک پہلو اس سارے معاملے کا لیکن یہ ہے کہ ایک شخص دن دہاڑے ایسی بیہودہ حرکت کر رہا ہے، لڑکے کو کہہ رہا ہے کہ لڑکی کے ساتھ سیکس کرو سب کے سامنے، لڑکی کے کپڑے اتار رہا ہے اور یہ سب کچھ کیمرے پر فلمبند بھی کر رہا ہے۔ بار بار اس کا اپنا چہرہ بھی کیمرے کے سامنے آ رہا ہے لیکن اس کو اس سب کی کوئی پروا نہیں ہے۔ یہی اس معاشرے کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے کہ لوگ یہاں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے ڈرتے نہیں۔ انہیں یہ یقین ہو چلا ہے کہ کم از کم قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

لیکن یہ سوشل میڈیا جسے یہ اپنی طاقت کو دنیا بھر کے سامنے دکھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور جس کے ذریعے اپنے جرائم کا کھلے عام پرچار کر کے دیکھنے والوں پر اپنی دھاک بٹھاتے ہیں، اسی نے ان کا پردہ فاش کیا۔ یہ شخص اب اسلام آباد پولیس کی حراست میں ہے اور اس کا اعلان خود ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات نے اپنی ٹوئیٹ میں کیا۔ انہوں نے ٹوئیٹ میں ساتھ یہ بھی اعلان کیا کہ انتظامیہ پوری کوشش کرے گی کہ یہ شخص اب کبھی جیل سے باہر نہ آئے۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔ لیکن اس ایک شخص کی شکل سوشل میڈیا پر آنے سے یہ سب کچھ ہو گیا۔ نہ جانے کتنے اور اس ملک کے شہروں اور دیہاتوں میں دندناتے گھوم رہے ہوں جن کی ویڈیو نہ بنتی ہو، جن کی ویڈیو بن کر منظرِ عام پر نہ آتی ہو۔ ویڈیوز پوسٹ کرنے والوں نے لکھا کہ انہوں نے پولیس کو 12 گھنٹے پہلے اطلاع دی لیکن کوئی کارروائی نہ کی گئی جس کے بعد انہوں نے ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے کا فیصلہ کیا۔ افسوس کہ ان ویڈیوز میں نوجوانوں کی تصاویر بھی صاف نظر آ رہی تھیں اور انہیں اپلوڈ کرنے سے پہلے ان کے چہروں کو چھپانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ کاش کہ یہ ویڈیوز اپلوڈ کرنے کی نوبت پیش نہ آتی۔ کاش ہماری پولیس ان بدمعاشوں اور جرائم پیشہ افراد کو لوگوں کی شکایات پر ہی پکڑ لیا کرتی۔ کاش اس کی قانون پر عملداری کا اس ملک میں اتنا خوف ہوتا کہ یہ بھیڑیے اس قسم کی حرکتوں کے بارے میں سوچ ہی نہ پاتے۔