بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ کا پاکستان کے حوالے سے اجلاس 12 جولائی کو ہوگا۔
آئی ایم ایف کی جانب سے ایک ای میل میں اجلاس کی تاریخ کی تصدیق کی گئی ہے۔ پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ کے درمیان نیا سٹینڈ بائے معاہدہ (SBA) 30 جون کو طے پایا تھا۔ پاکستان کو قرض کی پہلی قسط جولائی میں ملنے کی توقع ہے۔
ڈیفالٹ کے دہانے تک پہنچنے پاکستان کو سٹینڈ بائے ارینجمنٹ سے کافی مہلت مل گئی ہے۔ سٹینڈ بائے ارینجمنٹ پر اسٹاف لیول معاہدہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے۔
خیال رہے کہ پچھلی توسیعی فنڈ سہولت 30 جون کو ختم ہوچکی ہے جبکہ 9ویں، 10ویں اور 11ویں جائزے زیر التواء ہیں۔
ایک طرف پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سٹاف لیول کے سٹینڈ بائی معاہدے کو ماہرین نے معیشت کیلئے اچھا شگون قرار دیا ہے۔
دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے مہنگائی کا طوفان آئے گا۔ جبکہ بجلی اور گیس سمیت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔
ماہرین معشیت کا کہنا ہے کہ کہ معاہدے سے ادائیگیوں میں توازن آئے گا اور زرمبادلہ بڑھانے میں مدد ملے گی۔وقتی مسئلہ تو حل ہو گیا۔ اگر آئی ایم ایف رضامند نہ ہوتا تو مزید مہنگائی کا طوفان آنا تھا۔
ماہرین معشیت نے مستقبل پائیدار معیشت کےلئے حکومت سے مؤثر اور بروقت اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ قرض پر انحصار کم اور برآمدات بڑھانے کےلئے تمام سٹیک ہولڈرز کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔
جون کے آخر میں ہونے والے معاہدے کے بعدملک میں کاروباری ہفتے کے شروع ہوتے ہی مثبت اثرات دیکھے گئے اور سٹاک ایکسچینج 100 انڈیکس کا آغاز ہی 2200 سے زائد پوائنٹس کے اضافے سے ہوا۔
آئی ایم ایف سے سٹاف لیول معاہدے کے بعد پاکستانی روپے کی قدر پر بھی مثبت اثرات دیکھے گئے تھے اور اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر کی قدر میں تقریباً پانچ روپے کمی دیکھی گئی۔ پیر کو اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر کی قمیت فروخت 285 روپے رہی۔
اس سے قبل پیر کو وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد ایک عشاریہ ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط جولائی میں موصول ہو جائے گی۔
کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ آئندہ نو ماہ میں پاکستان کو تین ارب ڈالر ملیں گے جس کی پہلی قسط جولائی میں موصول ہو گی۔
انہوں نے بتایا کہہ ہمارے برادر ملک سعودی عرب نے دو ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا جس پر میں ان کا شکرگزار ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے معادہدہ کوئی فخریہ لمحہ نہیں بلکہ لمحہ فکریہ ہے۔ خدا کرے کہ یہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارا آخری معاہدہ ہو اور ہمیں دوبارہ ان کے پاس نہ جانا پڑے۔