ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹس تنازع: پاکستان کا موقف قبول، عدالتی دائرہ اختیار پر بھارتی اعتراض مسترد

ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹس تنازع: پاکستان کا موقف قبول، عدالتی دائرہ اختیار پر بھارتی اعتراض مسترد
اقوام متحدہ کی ایک غیر سرکاری تنظیم کی ثالثی عدالت نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹس کے حوالے سے پانی کی تقسیم کے دہائیوں پرانے معاہدے سے جڑے تنازع کی سماعت کے دوران عدالت کے دائرہ اختیار پر بھارت کے اعتراض کو مسترد کردیا۔

ذرائع اٹارنی جنرل آفس کا بتانا ہےکہ عالمی ثالثی عدالت نے کشن گنگا ڈیم پرپاکستان کا کیس قابل سماعت قرار دے دیا۔

ہیگ میں قائم پرمننٹ کورٹ آف آربٹریشن ( پی سی اے) نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹس تنازع پر  آج سماعت کا آغاز کیا۔ بین الاقوامی ماہرین کی ایک ٹیم نے پاکستان کی نمائندگی کی جس کہ مدد اٹارنی جنرل فار پاکستان کی ایک ٹیم نے کی جس میں ایڈوکیٹ زوہیر وحید اور ایڈووکیٹ محترمہ لینا نشتر شامل تھے جبکہ بیرسٹر احمد عرفان اسلم نے پی سی اے میں پاکستان کے ایجنٹ کے طور پر کام کیا۔

ثالثی عدالت نے پاکستان کے موقف کو قبول کرلیا کہ عدالت کے پاس بھارت کی طرف سے کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹس کے ڈیزائن کی تبدیلی کے حوالے سے بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازع کا تعین کرنے کا اختیار ہے۔

بھارت کی جانب سے ثالثی عدالت کے دائرہ اختیار کے مفروضے پر اعتراض کیا گیا تھا تاہم عدالت نے بھارتی اعتراض کو مسترد کر دیا۔

اب بین الاقوامی عدالت پاکستان کے اس دعوے کی میرٹ پر سماعت شروع کرے گی کہ مذکورہ دو منصوبوں کے ڈیزائن 1961 کے سندھ طاس معاہدے (انڈس واٹر ٹریٹی) کی خلاف ورزی ہیں۔

https://twitter.com/Matiullahjan919/status/1676876781280964608?s=20

واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین قانونی جنگ کا آغاز رواں سال 27 جنوری کو ہوا تھا۔

پاکستان نے 19 اگست 2016 کو سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل 9 کے مطابق ایڈہاک ثالثی عدالت کے قیام کی درخواست کرکے قانونی کارروائی کا آغاز کیا۔

پاکستان نے یہ قدم 2006 میں کشن گنگا پراجیکٹ اور 2012 میں رتلے پروجیکٹ کے لیے شروع ہونے والے ’پرمننٹ انڈس کمیشن‘ میں اپنے تحفظات کو سختی سے اٹھانے اور پھر جولائی 2015 میں نئی دہلی میں ہونے والے حکومتی سطح کے مذاکرات میں حل طلب کرنے کے بعد اٹھایا تھا۔

اٹارنی جنرل پاکستان کے آفس سے جاری بیان کے مطابق پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے تنازعات کے حل کے لیے تاخیر سے درخواست جمع کرانا بھارت کی خصوصی بدنیتی کا مظاہرہ تھا۔

دونوں فورمز کی کارروائی کے متضاد نتائج کے خدشے کے پیشِ نظر 12 دسمبر 2016 کو ورلڈ بینک نے ثالثی عدالت کے قیام اور غیر جانبدار ماہر کے تقرر کے عمل کو معطل کر دیا اور دونوں ممالک کو ایک فورم پر مذاکرات اور اتفاق کرنے کی دعوت دی۔ پاکستان اور بھارت باہمی طور پر قابل قبول کسی ایک فورم پر متفق نہیں ہو سکے۔

19 مئی 2018 کو پاکستان کے شدید احتجاج کے باوجود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر میں کشن گنگا ہائیڈرو پاور پلانٹ کا افتتاح کیا تھا۔

6 برس کے بعد بالآخر عالمی بینک نے معطلی ختم کرکے ثالثی عدالت بنائی اور ایک غیر جانبدار ماہر کا تقرر کیا۔ لیکن اس وقت تک بھارت کشن گنگا پراجیکٹ بنا چکا تھا۔

شان مرفی کو ورلڈ بینک نے 17 اکتوبر کو ثالثی عدالت (CoA) کا صدر اور مشیل لینو کو غیر جانبدار ماہر کے طور پر مقرر کیا تھا۔

پاکستان نے کشن گنگا منصوبے کے ڈیزائن پر تین اعتراضات اٹھائے کہ منصوبے کا تالاب 7.5 ملین کیوبک میٹر ہے جو کہ ضرورت سے زیادہ ہے اور اسے 10 لاکھ مکعب میٹر ہونا چاہیے۔ پاکستان یہ بھی چاہتا ہے کہ ہندوستان انٹیک کو 1-4 میٹر تک بڑھا دے اور سپل ویز کو  9 میٹر تک اونچا کرے۔

رتلے ہائیڈرو پاور پلانٹ کے معاملے پر اسلام آباد نے چار اعتراضات اٹھائے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ بھارت فری بورڈ کو ایک میٹر پر برقرار رکھے جبکہ بھارت اسے 2 میٹر پر رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت 24 ملین کیوبک میٹر کا تالاب رکھنا چاہتا ہے لیکن پاکستان کا مطالبہ ہے کہ اسے 8 ملین کیوبک میٹر تک محدود رکھا جائے۔ پاکستان یہ بھی چاہتا ہے کہ اس منصوبے کی انٹیک کو 8.8 میٹر تک بڑھایا جائے اور اس کے سپل ویز کو 20 میٹر تک بڑھایا جائے۔

حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کا کیس بہت مضبوط ہے۔ کشن گنگا کے حوالے سے معاہدے کی تشریح کے معاملے میں، ہیگ کی عدالت ڈرا ڈاؤن اور تالاب کے معاملات کا فیصلہ پہلے ہی پاکستان کے حق میں دے چکی ہے۔ لہذا ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کیس جیت جائے گا۔

850 میگاواٹ کا رتلے ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، اگر اس کے موجودہ قابل اعتراض ڈیزائن کے تحت تعمیر کیا جاتا ہے تو ہیڈ مرالہ کے مقام پر دریائے چناب کے پانی کے بہاؤ میں 40 فیصد کمی کرے گا، جو پاکستان کے وسطی پنجاب میں آبپاشی کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ بھارت نے رتلے پراجیکٹ کا ٹھیکہ ایک نجی کمپنی کو دیا ہے جو اس منصوبے کو 35 سال تک BOT (تعمیر، آپریٹ اور ٹرانسفر) کی بنیاد پر چلائے گی اور پھر اس منصوبے کو بھارت کے حوالے کر دے گی۔