پاکستان میں آمر جنرل ضیا نے جہاں اور بیماریوں کی آبیاری کی وہاں خواتین سے امتیازی سلوک کی یرقانی سوچ کو بھی فروغ دیا۔ اگرچے جنرل ضیا کے عبرت ناک انجام کو تین دہاٸیاں گذر چکی ہیں۔ تاہم ان کی یرقانی سوچ آج بھی معاشرے کو آلوده کر رہی ہے۔ 8 مارچ کو پاکستان میں خواتین کے دن پر خواتین مارچ ہو رہا ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری اور چیٸرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے خواتین مارچ کی حمایت کر کے اپنی پارٹی لاٸن واضح کر دی ہے جبکہ مذہبی جماعتوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہے اور باقی سیاسی پارٹیوں نے مکمل خاموشی اختیار رکھی ہے۔ ایک روز قبل جب ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک ڈرامہ نویس نے باوقار خاتون ماروی سرمد سے توہین آمیز گفتگو کی ان کے رویے سے مجھے الٹی آنے لگی تھی۔
سوال یہ ہے کہ کیا شوبز کی دنیا اس ڈرامہ نویس کی یرقانی سوچ کو اپنے میدان میں مزید جگہ دیتی ہے یا نہیں؟ ہم تسلیم کریں یا نہ کریں مگر سچ یہ ہے ہمارے معاشرے پر یرقانی سوچ والوں کا ابھی تک غلبہ ہے، انصاف کا منظر یہ ہے ہماری عدلیہ کے چہرے اور دامن پر بھٹو کے عدالتی قتل کا داغ ہے اور ہماری عدلیہ بھٹو قتل مقدمے میں تاریخ کے سامنے مجرموں کے کٹہرے میں کھڑی ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید بھی ایک خاتون تھیں، ان کو ایک دن بھی سکون سے نہیں رہنے دیا گیا۔
مگر سلام ہے پاکستان کے باشعور عوام پر جس کو جب بھی موقع ملا تو اس نے یرقانی سوچ رکھنے والوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا، آمر جنرل ضیا نے جہاں انسانی آزادی اور آواز پر قدغن لگاٸی تو وہاں خواتین کے ساتھ امتیازی قوانین بھی بناٸے جو خواتین کی زباں بندی کیلٸے تھے۔ 18ویں آٸینی ترمیم کے ذریعے صدر آصف علی زرداری نے خواتین سے امتیازی سلوک والے قوانین کو تو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا مگر اس یرقانی سوچ کی جڑ کو نذر آتش کرنے کیلٸے مزید اقدامات کی ضرورت تھی۔
اس لیے تو انہوں نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے غریب خواتین کی عزت و وقار کا ابتداٸی اقدام اٹھایا تاکہ وہ اپنے خاندان کی کفالت میں اپنا حصہ ڈال سکے۔ ہم مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو کو کیسے بھول سکتے ہیں جس نے جمہوریت کی راہ میں اپنا گلشن قربان کر دیا۔ صبر اور برداشت کا عظیم کردار بھی خاتون تھیں۔ ناصرہ شوکت محمود، بیگم نادرہ خاکوانی، عابدہ ملک، شاہدہ جبین، شمیم این ڈی خان، رقیہ خانم سومرو، نور جہاں سومرو، منیرا شاکر وہ عظیم خواتین ہیں جنہوں نے جمہوریت کی خاطر تشدد اور جبر کا سامنا کیا۔
کیا یہ قدرت کا انصاف نہیں ہے کہ ملالہ یوسف زٸی دنیا میں ہمارے ملک کی عزت اور وقار ہیں، ملالہ یوسف زٸی نے یرقانی سوچ کو شکست دی۔ عاصمہ جہانگیر انسانی حقوق کی علمبردار اس لیے ٹھہریں کہ انہوں طاقتور آمروں کے غرور کو مٹی میں ملایا۔
حیرت کی بات یہ ہے ماں جو بھی ایک عورت ہے کی گود میں پرورش پا کر شعور حاصل کرنے والے جب خواتین سے سامنے آستیں چڑھا کر یرقانی سوچ کا مظاہرہ کرنے لگیں تو معاشرہ کوڑہ جیسی بیماری میں مبتلا ہوگا۔ یرقانی سوچ رکھنے والے جب میرا جسم میری مرضی پر اپنی پست ذہنیت پر تاویلیں گھڑنے لگیں تو ان کی یرقانی سوچ کو شکست دینے کیلٸے ضروری ہے کہ ریاست ہر شعبہ میں خواتین کو برابری کے مواقع فراہم کرے۔