ذوالفقار علی بھٹو کو شفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا، سپریم کورٹ کی رائے

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا عدلیہ کا کام انصاف کی فراہمی ہے۔ تاریخ میں ایسے متعدد مقدمات ہیں جن میں درست فیصلے نہیں ہوئے۔ماضی کی غلطیوں کے ازالے کے بغیر درست سمت میں نہیں جاسکتے۔ بھٹو کے خلاف چلایا گیا ٹرائل آئین کے مطابق نہیں تھا۔بھٹو کے ٹرائل میں بنیادی حق پر عمل نہیں کیا گیا۔

 ذوالفقار علی بھٹو کو شفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا، سپریم کورٹ کی رائے

ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کیس میں سپریم کورٹ نے اپنی رائے جاری کردی، جس میں عدالت نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو شفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا۔ بھٹو کے خلاف چلایا گیا ٹرائل آئین کے مطابق نہیں تھا۔ لاہور ہائیکورٹ کا ٹرائل بھی بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس سید منصورعلی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ نے ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے گزشتہ روز احمد رضا قصوری، پیپلز پارٹی کے وکلا اور عدالتی معاونین کو سننے کے بعد رائے محفوظ کر لی تھی۔  چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس پر محفوظ رائے دی۔ اس موقع پر چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم ججز قانون کے مطابق فیصلہ کرنے اور ہر شخص کے ساتھ یکساں انصاف کے پابند ہیں۔ عدلیہ میں خود احتسابی ہونی چاہیے۔ ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

ریفرنس میں 5 سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ذوالفقارعلی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا۔ سپریم کورٹ کی رائے متفقہ ہوگی۔ بھٹو کے ٹرائل میں بنیادی حق پر عمل نہیں کیا گیا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا عدلیہ کا کام انصاف کی فراہمی ہے۔ تاریخ میں ایسے متعدد مقدمات ہیں جن میں درست فیصلے نہیں ہوئے۔ماضی کی غلطیوں کے ازالے کے بغیر درست سمت میں نہیں جاسکتے۔جس سوال پر معاونت نہیں ملی اس کا جواب نہیں دے سکتے۔

عدالت کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ تاریخ میں کچھ کیسز ہیں جنہوں نے تاثر قائم کیا عدلیہ نے ڈر اور خوف میں فیصلہ دیا۔ ماضی کی غلطیاں تسلیم کیے بغیر درست سمت میں آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے صدارتی ریفرنس پر رائے سنائے جانے کے وقت چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی عدالت میں موجود تھے اور رائے سنتے وقت بلاول بھٹو زرداری آبدیدہ بھی ہو گئے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا آج سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ ذوالفقار بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا۔ عدالت نے کہا کہ ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کیلئے فیصلہ سنارہے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے انتظار میں ہیں۔ عدالت کے تفصیلی فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کریں گے۔

واضح رہے کہ محمد رضا خان قصوری قتل کیس میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے دوبارہ سماعت کا آغاز گزشتہ برس 12 دسمبر سے کیا تھا۔ جس کی اب تک 8 سماعتیں ہوچکی ہیں۔ صدارتی ریفرنس کی 12 سالوں میں مجموعی طور پر 14 سماعتیں ہوئی ہیں۔

اپریل 2011 میں بحیثیت صدرِ پاکستان آصف زرداری نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کےخلاف ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا۔ جس میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے اعترافی بیان کو بنیاد بنایا گیا جس میں انہوں نے بھٹو کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ پر جنرل ضیاالحق کی حکومت کی جانب سے دباؤ کا ذکر کیا تھا۔

سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر ابتدائی 5 سماعتیں جنوری سے نومبر 2012 کے دوران سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے جبکہ  موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں آخری سماعت سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ نے کی تھی۔