5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق کی سربراہی میں فوج نے ملک کے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو کچھ عرصہ تحویل میں رکھ کر رہا کر دیا گیا مگر 3 ستمبر 1977 کو انہیں نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ 13 ستمبر کو ہائی کورٹ نے انہیں رہا کر دیا تو 17 ستمبر کو مارشل لاء کے ضابطہ 12 کے تحت انہیں پھر گرفتار کر لیا گیا۔
بھٹو کیس تھا کیا اور اس کے پیچھے کیا عوامل کارفرما تھے؟
بھٹو پر نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کا الزام لگا جو پیپلز پارٹی کے فعال اور سرگرم رہنما احمد رضا قصوری کے والد تھے۔ انہیں 10 اور 11 نومبر 1974 کی درمیانی شب لاہور میں شادمان کے علاقے میں قتل کیا گیا تھا۔ ان دنوں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے احمد رضا قصوری کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ تھے۔ 1967 میں جب پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو وہ بھٹو صاحب کے مداح اور فدائی تھے۔ انہیں ضلع قصور میں پارٹی کی مقامی شاخ کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا۔ 1970 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر وہ ممبر قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے۔ بعدازاں بھٹو صاحب اور احمد رضا قصوری کے مابین اختلافات پیدا ہو گئے۔ اختلافات اتنے بڑھ گئے کہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر وہ بھٹو کو برا بھلا کہنے لگے۔ آخرکار انہوں نے پیپلز پارٹی سے راہیں جدا کرنے کے بعد تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کر لی اور بھٹو کی مخالفت میں پارلیمنٹ میں تقریریں کرنے لگے جو ابھی بھی پارلیمنٹ کے ریکارڈ کا حصہ ہوں گی۔
احمد رضا قصوری نے اپنے والد کے قتل کے ابتدائی پرچے میں شک ظاہر کیا کہ ان کے باپ پر ہونے والے حملے کی وجوہات سیاسی تھیں اور اس حملے کے پیچھے خود وزیر اعظم بھٹو کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ پنجاب پولیس نے روایتی انداز میں کیس کی تفتیش کی اور کوئی سراغ نہ ملنے کی بنا پر اکتوبر 1975 میں مقدمہ بند کر دیا گیا۔ ملک میں مارشل لاء نافذ ہوا تو بھٹو کے خلاف مقدمہ قتل کے مدعی بھی حرکت میں آ گئے۔ مرکزی حکومت کے حکم پر وفاقی ادارہ تحقیقات (ایف آئی اے) نے مقدمہ کی ازسر نو تفتیش شروع کی تو پتہ چلا کہ نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل میں بھٹو کی بنائی ہوئی فیڈرل سکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) ملوث تھی۔ 24 جولائی 1977 کو ایف ایس ایف کے اہلکاروں ارشد اقبال اور رانا افتخار احمد کو گرفتار کر لیا گیا اور ان سے پوچھ گچھ کی گئی۔ دونوں نے وقوعہ میں ملوث ہونے کا اعتراف کر لیا۔
26 جولائی 1977 کو علاقہ مجسٹریٹ نے ان کے بیانات قلمبند کیے اور بعد ازاں مقدمہ میں دوسرے ملزمان غلام مصطفیٰ، میاں عباس اور وعدہ معاف گواہان مسعود محمود اور غلام حسین بھی پکڑ لئے گئے۔ ان سب نے زیر دفعہ 164 ضابطہ فوجداری اقبالی بیانات دیے جن کی روشنی میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری عمل میں آئی۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
11 ستمبر 1977 کو علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں نامکمل چالان پیش ہوا۔ دو ہی روز بعد 13 ستمبر کو خصوصی پیروکار سرکار کی درخواست پر قتل کا مقدمہ ہائی کورٹ کو منتقل کر دیا گیا جہاں قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کی سربراہی میں 5 ججوں پر مشتمل بنچ تشکیل دیا گیا۔ سب سے پہلی نا انصافی یہ کی گئی کہ قانون کے مطابق مقدمے کی سماعت سیشن کورٹ کے بجائے براہ راست ہائی کورٹ میں شروع کی گئی۔ اس طرح ملزم ذوالفقار علی بھٹو کو سیشن کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کے حق سے محروم کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں؛ تیسری دنیا کا سیزر مر چکا، سپریم کورٹ اسے واپس نہیں لا سکتی
11 اکتوبر 1977 سے ہائی کورٹ میں مقدمے کی باقاعدہ سماعت شروع ہوئی اور 5 مارچ 1978 کو اختتام کو پہنچی۔ 18 مارچ 1978 کو عدالت عالیہ نے اپنا فیصلہ سنایا۔
مقدمہ کے ابتدائی کوائف
فوجداری مقدمہ نمبر 60 لغایت 1977 بحضور لاہور ہائی کورٹ، لاہور
چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین، صدر جانشین
جسٹس ذکی الدین پال، رکن
جسٹس ایم این ایچ قریشی، رکن
جسٹس آفتاب حسین، رکن
جسٹس گلباز خان، رکن
مقدمہ کی پیروی
استغاثہ کی جانب سے ایم اے رحمان اور اعجاز حسین بٹالوی پیش ہوئے جبکہ مسٹر ڈی ایم اعوان، احسان قادر شاہ، عنایت اللہ اور مس طلعت یعقوب نے بھٹو کی پیروی کی۔ میاں قربان صادق اکرام نے میاں محمد عباس کی اور ارشاد احمد قریشی نے غلام مصطفیٰ، ارشد اقبال اور رانا افتخار احمد کی پیروی کی۔
بھٹو ہائی کورٹ کے بنچ سے کیوں مطمئن نہیں تھے؟
ذوالفقار علی بھٹو نے شروع ہی سے ہائی کورٹ کے بنچ پر اس بنا پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا کہ بنچ کے سربراہ فاضل قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین ان کے خلاف تعصب اور عناد رکھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بھٹو دور حکومت کے دوران اکتوبر 1976 میں ترقی کے معاملہ پر انہیں نظرانداز کر کے ان کے جونیئر کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا گیا تھا۔ بھٹو نے عدالت عالیہ، عدالت عظمیٰ اور گورنر پنجاب کو بھی اس امر سے متعلق کئی درخواستیں دیں کہ ان کا مقدمہ عدالت کے کسی دوسرے بنچ کو منتقل کر دیا جائے لیکن افسوس کسی بھی جگہ سے خیر کی خبر نہیں آئی۔ اس بنا پر 9 جنوری 1978 کو بھٹو نے وکلا کے مختار نامے منسوخ کر دیے اور عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا۔
پہلا سوال
بنچ سے دو ججوں کو کیوں نکالا گیا؟ جسٹس کے ایم صمدانی کی سربراہی میں جس دو رکنی ڈویژنل بنچ نے بھٹو کی ضمانت منظور کی تھی، ان دونوں ججوں کو سماعت کنندہ بنچ میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ جسٹس کے ایم صمدانی کا ہائی کورٹ سے تبادلہ کر دیا گیا اور بعدازاں انہیں ملازمت سے بھی فارغ کر دیا گیا۔ وہ کئی سال تک برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزارتے رہے۔
دوسرا سوال
سماعت بند کمرے میں کیوں ہوئی؟ لاہور ہائی کورٹ میں 70 دنوں میں سے 18 دن کی سماعت بند کمرے میں کی گئی۔ ہائی کورٹ نے اس بارے میں حکم جاری کیا کہ بھٹو کے بعض حامیوں نے چیف جسٹس کے کمرے کے باہر ہلڑ بازی کی ہے جس کی وجہ سے عدالت کے امن کو خطرہ ہے۔
تیسرا سوال
ملزم کی غیر حاضری میں سماعت کیوں ہوئی؟ نومبر کے دوسرے ہفتے میں بھٹو اچانک بیمار پڑ گئے، اس لیے 13 نومبر کو عدالت میں حاضر نہ ہو سکے اور سماعت 15 نومبر تک ملتوی ہو گئی۔ 25 نومبر کو سپرنٹنڈنٹ جیل نے خط میں لکھا کہ بھٹو اب پہلے سے بہتر ہیں مگر عدالت میں مسلسل پانچ سے چھ گھنٹے نہیں بیٹھ سکتے۔ 26 نومبر کو جرح کے لیے قصوری کو دوبارہ طلب کیا گیا۔ وکیل نے اعتراض کیا کہ بھٹو کی عدم موجودگی میں اس پر جرح کرنا مشکل ہو گا لیکن اعتراض مسترد کر دیا گیا۔ 13 تا 30 نومبر کے دوران بھٹو کی غیر حاضری میں 15 گواہوں کی شہادتیں ریکارڈ کی گئیں اور ان پر جرح مکمل کی گئی۔
لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ
پیرا 618؛ جملہ الزامات جو ملزمان پر لگائے گئے تھے، پوری طرح ثابت ہو گئے ہیں۔ یہ بھی ثابت ہو گیا کہ احمد رضا قصوری کو قتل کرنے کی سازش نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل پر ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کے بعد بھی جاری رہی کیونکہ قصوری کے قتل کا مشن پورا نہیں ہوا تھا۔ سازش کی سزا پر دفع 120 (ب) بشمول دفع 115 ضابطہ فوجداری کا اطلاق ہوتا ہے۔
پیرا 620؛ میں پانچوں ملزمان کو ضابطہ فوجداری کی دفع 120 (ب) بشمول دفع 109، 111 ض، ف موت کی سزا دیتا ہوں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو زیر دفع 544 (الف) ض ف 25 ہزار روپے جرمانہ بھی ادا کرنا پڑے گا۔ جرمانہ کی رقم وصول ہونے کی صورت میں نواب محمد احمد خان قصوری کے ورثا کو ادا کی جائے گی۔
مقدمہ کی سماعت 2 مارچ کو مکمل ہوئی اور 16 دن کی خاموشی کے بعد 18 مارچ کو صبح سویرے ساڑھے 8 بجے سے بھی پہلے فیصلہ سنا دیا گیا۔
سپریم کورٹ میں اپیل کے لیے محض 7 دن کی مہلت
کسی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کے لیے عموماً 30 دن کی مہلت دی جاتی ہے لیکن بھٹو کے ساتھ اس معاملے میں بھی امتیازی سلوک روا رکھا گیا اور اپیل کے لیے 30 دن کے بجائے انہیں فقط 7 روز کی مہلت دی گئی۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف 25 مارچ 1978 کو تین اپیلیں دائر کی گئیں۔ ایک بھٹو کی جانب سے، دوسری میاں محمد عباس اور تیسری غلام مصطفیٰ، ارشد اقبال اور رانا افتخار کی طرف سے مشترکہ طور پر دائر کی گئی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان اپیلوں پر جو فیصلہ سنایا وہ متفقہ نہیں تھا۔ بنچ میں شامل 4 ججوں نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھنے اور 3 نے اسے مسترد کرنے کے حق میں رائے دی۔
1500 صفحات پر پھیلا یہ فیصلہ غیر معمولی طور پر طویل اور بوجھل تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ تب چلایا گیا جب ملک میں ان کی مخالف حکومت برسراقتدار تھی۔ جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت بھٹو، ان کے خاندان اور ان کی پارٹی کی اس قدر مخالف تھی کہ ضیاء کے 11 سالہ دور میں نا صرف سیاسی کارکنوں پر تشدد کیا گیا بلکہ صحافیوں کو بھی کوڑے مارے گئے۔
یاد رہے ان اپیلوں پر سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ 6 فروری 1979 کو سنایا اور بھٹو کی سزائے موت پر 4 اپریل 1979 کی رات کو عمل درآمد کروا دیا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دیے جانے کے بعد کوثر نیازی نے لکھا تھا؛
راز دنیا پہ کھلا ہے یہ ترے قتل کے بعد
لوگ مر کے بھی رہا کرتے ہیں زندہ کیسے
کون کتنا ہے ترے قتل کی سازش میں شریک
اک نہ اک روز نقاب اٹھے گا ہر چہرے سے
شہر تو محو مناجات و دعا تھا پوچھو
حاکم شہر نے وہ رات گزاری کیسے؟
جیسے دراصل ہوا کرتے ہیں کوثرؔ حالات
بسا اوقات نظر آتے نہیں ہیں ویسے
6 مارچ 2024 کو سپریم کورٹ میں دائر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق ریفرنس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بنچ نے قرار دیا ہے کہ ذوالفقار بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا اور ٹرائل میں بنیادی حق پر عمل نہیں کیا گیا۔ 45 سال بعد بھٹو کو انصاف ملا تو اس کے نواسے بلاول کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو بھٹو خاندان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی عملی تصویر بن گئے۔