سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے بارے میں پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ ابھی آنا باقی ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد سنی اتحاد کونسل کے کوٹے کی 23 مخصوص نشستوں میں سے 14 نشستیں ن لیگ، 6 پیپلز پارٹی جبکہ 3 نشستیں جمیعت علماء اسلام کو دے دی گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تو کیا ہو گا؟
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن پاکستان کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ اگر پشاور ہائی کورٹ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دے تو مخصوص نشستوں پر کوئی بھی حلف نہیں اٹھا سکتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مخصوص نشستوں کا معاملہ سپریم کورٹ میں جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
الیکشن کمیشن قومی اسمبلی کی خواتین کے لیے مخصوص 60 نشستوں میں سے 40 اور اقلیتوں کے لیے مخصوص 10 نشستوں میں سے 7 نشستیں پہلے ہی سیاسی جماعتوں کو دے چکا ہے۔
الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کی 23 میں سے 14 مخصوص نشستوں کی تقسیم کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق ن لیگ، پیپلز پارٹی اور جمیعت علماء اسلام کو ایک ایک مخصوص اقلیتی نشست دی گئی ہے۔ خواتین کی 20 مخصوص نشستوں میں سے 11 نشستیں تقسیم کر دی گئی ہیں۔
ان 20 مخصوص نشستوں میں سے الیکشن کمیشن کی جانب سے مسلم لیگ ن کو 5، پیپلز پارٹی کو 4 جبکہ جے یو آئی ف کو 2 خواتین کی مخصوص نشستیں دی گئی ہیں۔ پنجاب سے مسلم لیگ ن کی ترجیحی فہرست کے ختم ہونے پر 9 نشستیں 20 مارچ تک ن لیگ کو الاٹ کی جائیں گی۔ الیکشن کمیشن نے ن لیگ سے خواتین امیدواروں کی ترجیحی فہرست طلب کر لی ہے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
یاد رہے 2013 کے انتخابات میں بھی مسلم لیگ ن کی قومی اسمبلی میں زیادہ نشستوں کے بعد ن لیگ نے مخصوص نشستوں کے لیے سپلیمنٹری فہرست الیکشن کمیشن میں جمع کروائی تھی۔ اس مرتبہ پنجاب سے مسلم لیگ ن کی خواتین کی مخصوص نشستوں کے لیے دی گئی ترجیحی فہرست کے ختم ہونے پر 9 نشستیں 20 مارچ تک ن لیگ کو الاٹ کی جائیں گی۔
2013 کے جنرل الیکشن میں مسلم لیگ ن کامیاب ہوئی تھی۔ قومی اسمبلی میں ن لیگ کو خواتین کی 35 مخصوص نشستیں ملی تھیں جن پر 32 خواتین نے پنجاب سے جبکہ 1 نشست پر خیبر پختونخوا سے بیگم طاہر بخاری نے، 1 نشست پر بلوچستان سے کرن حیدر نے جبکہ 1 نشست پر سندھ سے ماروی میمن نے نمائندگی کی تھی۔
قومی اسمبلی میں اکثریتی جماعت کون سی ہے؟
حالیہ انتخابات میں ن لیگ نے 75 جنرل نشستیں حاصل کی تھیں۔ بعد ازاں 9 آزاد امیدوار بھی ن لیگ میں شامل ہو گئے تھے۔ مخصوص نشستیں ملنے کے بعد قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن 114 نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر آ گئی تھی اور اب 9 مزید مخصوص نشستیں ملنے کے بعد قومی اسمبلی میں ن لیگ کے اراکین 123 ہو گئے ہیں۔ اگر مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ پشاور ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ آف پاکستان تبدیل نہیں کر دیتے تو مسلم لیگ ن قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ اراکین والی پارٹی کے طور پر موجود رہے گی۔
قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل 82 اراکین کے ساتھ دوسرے نمبر پر، پیپلز پارٹی 73 ایم این ایز کے ساتھ تیسرے، ایم کیو ایم پاکستان 22 ایم این ایز کے ساتھ چوتھے، جمیعت علماء اسلام 11 اراکین کے ساتھ پانچویں، مسلم لیگ ق 5 ایم این ایز کے ساتھ چھٹے جبکہ استحکام پاکستان پارٹی 4 ایم این ایز کے ساتھ ساتویں نمبر پر ہے۔ مجلس وحدت المسلمین، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور مسلم لیگ ضیاء کا ایک ایک رکن قومی اسمبلی میں موجود ہے۔
دو تہائی اکثریت والی اسمبلی
یہ بھی اہم بات ہے کہ اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں کو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔ موجودہ قومی اسمبلی کے مجموعی ممبران کی تعداد 336 ہے اور دو تہائی اکثریت کے لیے کسی جماعت یا اتحاد میں کم از کم 224 ممبران کا ہونا ضروری ہے۔ مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان، مسلم لیگ ق اور استحکام پاکستان پارٹی پر مشتمل حکومتی اتحاد میں 230 تک ممبران شامل ہیں۔ کہا جا رہا تھا کہ موجودہ اسمبلی تاریخ کی کمزور ترین اسمبلی ہو گی مگر اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو یہ تاثر درست دکھائی نہیں دیتا۔ دو تہائی اکثریت کے ساتھ موجودہ پارلیمنٹ آئینی ترمیم بھی عمل میں لا سکتی ہے۔ اگر حکومتی اتحاد برقرار رہتا ہے تو ضرورت کے مطابق آئین میں ترمیم لانا ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شہباز شریف کی قیادت میں حکومتی اتحاد کس حد تک متحد رہ سکتا ہے۔