Get Alerts

فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل ہو جاتا تو 9 مئی کا واقعہ نہ ہوتا: چیف جسٹس

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کمیشن کا کام انکوائری کرنا تھا جو نظر نہیں آ رہی۔ سمجھ نہیں آ رہا یہ کیسی رپورٹ ہے۔ ہمارا وقت کیوں ضائع کیا۔انکوائری کمیشن نے کوئی فائنڈنگ نہیں دی۔ نہ ہی ملک کو ہونے والے نقصان پر کچھ لکھا۔ شہادتوں اور ثبوتوں کو سامنے لانا کمیشن کا کام تھا۔ لگتا ہے کہ دھرنا کمیشن کا واحد کام جنرل فیض حمید کو الزامات سے بری کرنا تھا۔

فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل ہو جاتا تو 9 مئی کا واقعہ نہ ہوتا: چیف جسٹس

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ تحقیقاتی رپورٹ میں کوئی فائنڈنگ نظر نہیں آرہی۔ رپورٹ میں لکھا ہے ٹھوس شواہد نہیں ملے۔ تحقیقاتی کمیٹی نے ہمارا وقت ضائع کیوں کیا۔ کمیشن نے فیض حمید کے بیان کی بنیاد پر رپورٹ تیار کردی۔ اگر فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جاتا تو شاید 9 مئی کا واقعہ بھی نہ ہوتا۔ لگتا ہے کہ دھرنا کمیشن کا واحد کام جنرل فیض حمید کو الزامات سے بری کرنا تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی بنچ کا حصہ ہیں۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے رپورٹ جمع کرائی ہے آپ نے وہ رپورٹ دیکھی ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابھی الیکشن کمیشن کی رپورٹ نہیں دیکھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ تب تک رپورٹ کا جائزہ لے لیں، اس کیس کو آخر میں سنتے ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں وقفہ کر دیا۔

وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ دھرنا انکوائری کمیشن کے سربراہ بھی عدالت میں موجود ہیں۔ عدالت کا رپورٹ سے متعلق کوئی سوال ہو تو کمیشن کے سربراہ سے پوچھا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کمیشن رپورٹ کے غیر مستند ہونے پر برہمی کا اظہار کیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کمیشن کا کام انکوائری کرنا تھا جو نظر نہیں آ رہی۔ سمجھ نہیں آ رہا یہ کیسی رپورٹ ہے۔ ہمارا وقت کیوں ضائع کیا۔انکوائری کمیشن نے کوئی فائنڈنگ نہیں دی۔ نہ ہی ملک کو ہونے والے نقصان پر کچھ لکھا۔ شہادتوں اور ثبوتوں کو سامنے لانا کمیشن کا کام تھا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جنرل (ر) فیض حمید نے کمیشن کو بتایا کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے معاملات دیکھنا آئی ایس آئی کی ذمہ داری نہیں۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اگر ان کی ذمہ داری نہیں تو پھر یہ کس کی ذمہ داری ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ کس طرح کی رپورٹ کمیشن نے بنائی ہے۔کمیشن کے دیگر ممبران کہاں ہے؟ ایک پیراگراف میں کہہ رہے ہیں آئی ایس آئی کی ذمہ داری نہیں۔ آگے پیراگراف میں لکھ رہے ہیں ٹی ایل پی کے مالی معاونت کے ثبوت نہیں ملے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو فیض آباد دھرنے سے کتنے نقصانات ہوئے؟  نکالے، مارو، جلاؤ گھیراؤ کرو اور چلے جاؤ یہ کیا طریقہ کار ہے؟

دوران سماعت فیض آباد دھرنا کمیشن ممبران میں سے کوئی بھی عدالت میں پیش نہیں ہوا۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بتایا کہ کمیشن کے سربراہ اختر علی شاہ کو آج کورٹ آنے کا کہا گیا تھا۔ سربراہ کمیشن کی جانب سے بیمار ہونے کا بتایا گیا ہے۔

بعد ازاں کمیشن کی رپورٹ پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی برہم ہوگئے، انہوں نے ریمارکس دیے کہ میں سمجھ نہیں پا رہا کس لیول کے ذہن نے یہ رپورٹ تیار کی ہے؟ کمیشن کو معلوم ہی نہیں ان کی ذمہ داری کیا تھی؟ کمیشن نے فیض حمید کے بیان کی بنیاد پر رپورٹ تیار کر دی، پاکستان کا کتنا نقصان ہوا لیکن اس کے نقصان کی کسی کو پرواہ ہی نہیں۔ آگ لگاؤ ،مارو یہ حق بن گیا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمیشن کے دیگر ممبران کہاں ہیں؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو سبق نہیں سیکھتے انہیں سبق سکھایا جانا چاہیے۔ ایک تو چوری پھر سینہ زوری، ریاست کو اپنی رٹ منوانا پڑے گی۔ لوگوں کی املاک کو آگ لگائی گئی۔اس بیچارے کا تو کوئی قصور نہیں تھا۔ آگ لگانے والے کو ہیرو بنا کر تو نہ پیش کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے تو انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر مایوسی ہی ہوئی ہے۔ کہتے ہیں بس آگے بڑھو۔ ماضی سے سیکھے بغیر کیسے آگے جا سکتے ہیں؟ جب پاکستان بنا تھا، بتائیں کہیں کسی نے آگ لگائی تھی؟ یہاں ہر جگہ بس آگ لگا دو والی بات ہے۔

جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ کراچی میں چھوٹے سے معاملے پر کسی کی موٹرسائیکل روک کر آگ لگا دی جاتی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کمیشن کہہ رہا ہے جو کر رہے تھے وہ ذمہ دار نہیں، پنجاب حکومت ذمہ دار ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کمیشن کہ رہا ہے پنجاب حکومت رانا ثنا اللہ چلا رہے تھے وہی ذمہ دار ہیں۔ کمیشن نے یہ نہیں بتایا کہ حلف کی خلاف ورزی کس نے کی۔ کمیشن کیسے کہہ سکتا کہ مظاہرین کو پنجاب میں روکنا چاہیے تھا؟ پرامن احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے۔ مجھے معلوم نہیں کمیشن کو کس بات کا خوف تھا، انکوائری کمیشن کو لگتا ہے پنجاب حکومت سے کوئی بغض ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلیل دی کہ کمیشن کا سارا فوکس صرف اس بات پر تھا کہ پنجاب سے اسلام آباد کیوں آنے دیا؟

جسٹس عرفان سعادت خان نے ریمارکس دیے کہ کمیشن نے سارا نزلہ پنجاب حکومت پر گرایا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کمیشن نے مداخلت نہ کرنے پر ساری رپورٹ پنجاب حکومت کیخلاف لکھ دی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ مان لیتے ہیں پتھر بھی پنجاب سرکار نے مارے تھے۔مان لیتے ہیں گاڑیاں بھی پنجاب سرکاری نے جلائی تھی۔ اس وقت پنجاب میں کس کی حکومت تھی؟

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس وقت شہباز شریف وزیر اعلٰی تھے۔  چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ میں آئی جی پنجاب کی بات کی گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آئی جی کے ساتھ کوئی پرانی مخاصمت تھی تاکہ سکور برابر ہو۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کمیشن والے بھی پولیس میں رہ چکے ہیں مگر لگتا ہے پولیس سے ہی کوئی خاص دشمنی تھی۔ لگتا ہے کمیشن والوں نے اپنے پرانے ساتھیوں سے کوئی سکور برابر کیا ہے۔ کمیشن کہیں بھی نہیں لکھ رہا مظاہرین نے غلط کیا۔ اس رپورٹ میں سنجیدگی تو نظر نہیں آ رہی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیشن کو فریم ورک کی سفارشات کا کہا تھا مگر وہ نہیں دیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمیشن کا ان پٹ کیا ہے؟ کمیشن کہہ رہا ہے قانون موجود ہیں ان پر عمل کر لیں۔ بہت شکریہ ، یہ کہنے کیلئے کیا ہمیں کمیشن بنانے کی ضرورت تھی؟ اگر 2019 والے فیصلے پر عمل کرتے تو 9 مئی بھی شاید نہ ہوتا۔

اٹارنی جنرل کہا کہ کمیشن نے لکھا نظر ثانی درخواستیں اتفاق سے سب نے دائر کیں اپنی وجوہات پر واپس لیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ماشا اللہ، یہ لوگ پتہ نہیں پولیس میں کیسے رہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ چور سے پوچھ لیا تو نے چوری تو نہیں کی۔ درخواستیں دائر کرنے والے سب لوگوں سے پوچھ تو لیتے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا خوبصورت اتفاق تھا اتنی نظر ثانی درخواستیں دائر ہوئیں۔ آرکسٹرا کے کنڈکٹر ہوتے ہیں یہاں مگر کوئی کنڈکٹ نہیں کر رہا تھا۔کسی نے نظر ثانی کی منظوری دی ہوگی۔ وکیل کیا ہوگا ساری پیپر ٹریل کدھر ہے؟ یہ بہت ہی مایوس کن ہے کیوں ملک کا وقت ضائع کیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کمیشن نے ٹی ایل پی کی طرف سے کسی کو بلایا؟ شاید ٹی ایل پی والے ان کی معاونت کر دیتے، ان کو بلاتے ہوئے انہیں ڈر لگ رہا تھا۔ جن سے متعلق انکوائری کر رہے تھے ان کا موقف لے لیتے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ان کو بھی نہیں بلایا گیا جن کے پاس سے اسلحہ برآمد ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسلحہ لانے والوں کی نیت تو واضح تھی کہ وہ پرامن مظاہرین نہیں۔

جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ ناشتہ اور کھانے پہنچانے والوں کے تو بیان ہوئے مگر ٹی ایل پی کے نہیں۔  چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کھانا کھلانا تو کوئی جرم نہیں ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کمیشن کے لوگ تو دفتر سے نکلے ہی نہیں۔ انہوں نے اٹارنی جنرل سے دریافت کیا کہ یہ لوگ کہاں پر بیٹھے ہوئے تھے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمیشن کے لوگ وزارت داخلہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہاں سے نہیں نکلے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ لوگ 12 مئی اور بعد والے دھرنے کو گول کر گئے ہیں۔ہم نے کہا تھا ان معاملات کا کچھ کریں۔ یہ دھرنا کہاں سے کہا گیا یہ آئی ایس آئی کے ڈومین میں نہیں تھا۔ یہ جنرل فیض نے جواب دیا ہے اس کا ذکر ہے۔ اتنے با اثر شخص سے انہوں نے کیسے پوچھا؟ انہوں نے بات کی تو کمیشن نے فتویٰ سمجھ لیا۔ جنرل فیض کا ذکر بار بار کیوں کیا جا رہا ہے؟ یہ تو بتاتے کہ یہ سب کچھ کرنے کا ان کے پاس اختیار تھا یا نہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ جنرل فیض کا کتنی مرتبہ انہوں نے حوالہ دیا ہے۔ یہ تو لگتا ہے صرف جنرل فیض کو بری کرنے کیلئے یہ سب کرنا تھا۔ ہم نے تو جنرل فیض کا لکھا نہیں تھا۔ انہوں نے جنرل فیض کو کتنی مرتبہ بلایا؟

اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے جواب دیا کہ جنرل فیض کو ایک مرتبہ بلایا گیا۔  چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کمیشن کیسے قانون سازی کا کہہ رہا ہے۔

اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے جواب دیا کہ جنرل فیض کو سوال نامہ بھیجا گیا تو ان کا جواب آیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا موبائل فون کا ایک بٹن دبا دیں تو اس سے ریکارڈنگ ہو جاتی ہے۔ یہ اس آدمی کو کیسے بری کرنے کیلئے کہہ رہے ہیں۔ آرمی حکومت کا حصہ ہے۔ آرمی کیسے سیکریٹ ہوگئی۔ جو کام کمیشن کو دیا تھا وہ کام انہوں نے نہیں کیا اور جو کام نہیں دیا وہ کر رہے ہیں۔

جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیے کمیشن ہمیں کہہ رہا ہے کہ مصطفیٰ کیس پر نظرثانی کریں جبکہ چیف جسٹس نے کہا سینئر بیوروکریٹ کو پتا ہی نہیں ہے کہ سسٹم کیسے کام کرتا ہے۔  پتا نہیں یہ کس قسم کی رپورٹ ہے۔ رپورٹ میں آؤٹ آف وے جا کر لوگوں کو بری کیا جا رہا ہے اور آؤٹ آف وے جا کر لوگوں کو ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا ایک ڈی جی سی آ کر کہہ گیا کہ میرا یہ مینڈیٹ ہی نہیں۔ یہ مینڈیٹ نہیں تو پھر رپورٹ میں لکھنا چاہیے تھا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا بلوچستان میں امپورٹر ایکسپورٹر کے شناختی کارڈ آئی ایس آئی کے کہنے پر بلاک کئے گئے۔ یہاں وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ان کا مینڈیٹ ہی نہیں۔

سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ رپورٹ میں میرا بھی ذکر ہے۔جس پر چیف جسٹس بولے ابصار عالم نے بتایا کہ جنرل فیض نے ان سے رابطہ کیا جبکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ابصار عالم سے جنرل فیض کے رابطے کا ثبوت نہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا اگر ابصار عالم کہہ رہے ہیں کہ رابطہ کیا ہے تو کمیشن جنرل فیض کو بلا لیتا۔کمیشن والے جنرل فیض اور ابصار عالم کو آمنے سامنے بٹھا لیتے۔کمیشن والے ان سے سوال جواب کرتے اور نتیجہ لکھ دیتے۔ ایک کو مسترد کر دیں اور دوسرے کو مان لیں یہ درست نہیں۔ اگر ابصار عالم پر یقین نہیں کر رہے تھے تو ان سے سوال جواب کرتے۔

ابصار عالم نے کہا میرے بارے میں کمیشن آدھا مان رہا ہے اور آدھا نہیں مان رہا۔

چیف جسٹس نے کہا دہشتگردی کی فنانسنگ کو دیکھنے سے متعلق یہ کہہ رہے ہیں ان کا کام نہیں۔ اہم متاثرہ فریق ٹی ایل پی تھی اس سے بھی کچھ نہیں پوچھا۔ ہم جنرل فیض کو نوٹس کر دیتے ہیں کہ اس کو مانتے ہیں یا نہیں۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ کمیشن ابصار عالم کا بیان حلف پر لے رہا ہے۔ جنرل فیض کا بیان نہیں لے رہا جبکہ چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ہم نے کمیشن کی رپورٹ کی ابھی توثیق نہیں کی۔ سرکار کی مرضی ہے رپورٹ پبلک کرے نہ کرے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کی رپورٹ بذریعہ اٹارنی جنرل آفس سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی تھی۔