پاکستان مسلم لیگ ن نے ڈسکہ الیکشن میں دھاندلی ثابت ہونے پر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کیخلاف کاروائی کا مطالبہ کردیا، ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا کہ عمران صاحب کو الیکشن قوانین کے مطابق سزا ملنی چاہئیے، ماتحت عملے کیخلاف کاروائی پورا انصاف نہیں ہے، واضح ہوگیا کہ عمران صاحب کی ایماء پر منظم انداز میں دھاندلی کا جرم کیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق ترجمان مریم اورنگزیب نے ڈسکہ الیکشن کی تحقیقاتی رپورٹ پر الیکشن کمیشن سے وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی پنجاب کیخلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران صاحب کو الیکشن قوانین کے مطابق سزا ملنی چاہئیے۔ واضح ہوگیا کہ عمران صاحب کی ایماء پر وزیراعلی پنجاب، وفاقی وزرا اور دیگر حکومتی رہنماؤں نے منظم انداز سے دھاندلی کے جرم کا ارتکاب کیا۔
ڈسکہ رپورٹ کی روشنی میں ماتحت عملے کے خلاف کاروائی پورا انصاف نہیں ہے۔ عمران صاحب اور وزیر اعلی پنجاب سمیت وفاقی اور صوبائی ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے اور سزائیں دی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ غیر قانونی حکم ماننے والوں کے خلاف کارروائی کے ساتھ جنہوں نے یہ غیر قانونی حکم دیا، ان کے خلاف بھی کارروائی کرنے سے ہی انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے۔
واضح رہے انکوائری کمیٹی نے دھاندلی کا ذمہ دار الیکشن کمیشن افسران ڈی آر او عابد حسین اور آر او اطہر عباسی کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر اور ریٹرننگ آفیسر کی نااہلی کے باعث ڈسکہ الیکشن سبوتاژہوا۔رپورٹ میں نا اہل ڈی آر او اور آر او کو آئندہ کوئی انتظامی پوسٹ نہ دینے اور انتخابی ڈیوٹی سے دور رکھنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا گیا کہ ریٹرننگ افسران میں بروقت فیصلہ کرنے کا فقدان نظر آیا، پولنگ کے روز ہونے والے واقعات سے پولیس اور انتظامیہ آگاہ تھی لیکن ان کی روک تھام کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات نطر نہیں آئے، پولیس نے اپنی ذمہ داریاں پوری طرح ادا کرنے میں کوتاہی کی، الیکشن ڈیوٹی پر مامور محکمہ تعلیم کے ملازمین بھی واقعات میں ملوث نکلے، سی ای او ایجوکیشن سیالکوٹ مقبول احمد شاکر بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے، انہوں نے نااہلی اور جانبداری کا مظاہرہ کیا، ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی جاتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر فرخندہ یاسمین پر اپنے گھر پر غیر قانونی میٹنگ منعقد کرنے کا الزام ثابت ہوا، ان کے خلاف فوجداری اور محکمانہ سخت کارروائی کی سفارش کی جاتی ہے، پولیس افسران اور اہلکار غیر قانونی سرگرمیوں میں پوری طرح ملوث تھے، انہوں نے الیکشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی اور الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے۔
پولیس افسر 20 پریذائیڈنگ افسران کو آر او آفس کے بجائے دوسری جگہ منتقل کر کے دباؤ کے تحت نتائج تبدیل کرانے میں ملوث رہے، پولنگ عملے کے مخلتف مفادات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔انکوائری کمیٹی نے تمام ملوث افراد کے خلاف انضباطی کارروائی اور پریذائیڈنگ آفیسرز کی جانب سے نامزد پولیس افسران کیخلاف فوجداری کارروائی کی سفارش کی۔
رپورٹ میں 20 متنازعہ پولنگ اسٹیشنز پر تعینات پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی محکمانہ کارروائی کی سفارش کرتے ہوئے کہا گیا کہ پریذائیڈنگ افسران سرکاری گاڑی کی بجائے پرائیویٹ کار میں آر او آفس کیلئے روانہ ہوئے، وہ دوران ڈیوٹی مختلف افراد سے کال پر بات چیت کرتے رہے، دوران انکوائری بعض افراد نے انکوائری میں تعاون بھی نہیں کیا، پریذائیڈنگ افسران انکوائری کے دوران جھوٹ سے کام لیتے رہے، لیکن سی ڈی آر رپورٹ کے حوالہ کے بعد پریذائیڈنگ افسران نے آر او آفس کے بجائے دوسری جگہ جانے کا اعتراف کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پریذائیڈنگ افسران کی گمشدگی اتفاق نہیں بلکہ منصوبہ بندی کے تحت ہوئی، انہیں پہلے پسرور پھر سیالکوٹ لے جایا گیا۔رپورٹ میں فردوس عاشق اعوان پر بھی انگلیاں اٹھاتے ہوئے کہا گیا کہ اسسٹنٹ کمشنر (اے سی) ڈسکہ کے گھر پر ضمنی انتخاب میں دھاندلی کیلئے میٹنگ ہوئی، جس میں فردوس عاشق اعوان ، وزیراعلی پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری علی عباس، ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ تعلیم محمد اقبال اور دیگر موجود تھے۔
رپورٹ کے مطابق پریذائیڈنگ افسران کو شناختی کارڈ کی نقول پر بھی ووٹ ڈالنے کی اجازت دینے کا کہا گیا، عملے کو کہا گیا پولیس اور انتظامیہ کے کام میں مداخلت نہیں کرنی، انتخابی عملہ اور سرکاری مشینری قانون توڑنے والوں کے کٹھ پتلی بنے رہے۔ انکوائری رپورٹ میں لاپتہ پریذائیڈنگ افسران کا کردار بھی مشکوک قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کے اپنے افسران کو بھی ذمہ دار قرار دیا گیا۔انکوائری کمیشن نے فارم 45 اور 46 میں ترمیم کرنے اور ان میں پولنگ ایجنٹ کی ریسیونگ کا خانہ شامل کرنے کی سفارش بھی کی۔