11 ستمبر 2001 کو جب عالمی شدت پسند تنظیم القاعدہ کی طرف سے امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کیا گیا تو اسی شام سے امریکن میڈیا نے اس دہشت گرد کارروائی کے تانے بانے افغان سرزمین سے جوڑنا شروع کر دیے۔
اور پھر 7 اکتوبر کا وہ خوف ناک دن بھی آ گیا جب امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کر دی۔ لیکن اس یلغار سے دو ہفتے قبل ہی پشاور شہر غیر ملکی میڈیا نمائندوں کا مرکز بن چکا تھا۔ ان دنوں عالمی ذرائع ابلاغ کے لئے افغانستان کور کرنا بہت بڑی ضرورت بن گیا تھا کیونکہ ایک تو امریکہ کی سربراہی میں قریباً چالیس ممالک پر مشتمل اتحاد جنگ میں شامل تھا اور ظاہر ہے جب اتنے سارے اہم اور طاقتور یورپی ممالک اتحاد کا حصہ ہوں تو ان اقوام کو باخبر رکھنے کے لئے وہاں سے پل پل اور لمحہ بہ لمحہ خبر دینا لازم امر ہو گیا تھا۔
چونکہ اس وقت افغانستان کے اندر غیر یقینی کی کفیت تھی لہٰذا غیر ملکی میڈیا کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اندر سے جا کر رپورٹ کرے لیکن اس کے لئے پاکستان میں دو ایسے شہر تھے جہاں سے وہ افغانستان کے حالات کو بہتر طریقے سے کور کر سکتے تھے، ان میں ایک بلوچستان کا شہر کوئٹہ اور دوسرا پشاور تھا۔
کوئٹہ چونکہ افغان سرحد چمن سے کافی دور پڑتا ہے اور آگے چمن پھر کابل سے لگ بھگ 450 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے لہٰذا تمام میڈیا کی توجہ پشاور پر مرکوز تھی جہاں سے نہ صرف افغان سرحد قریب ہے بلکہ وہاں سےکابل جانا بھی نہایت قریب اور آسان پڑ جاتا ہے۔
پشاور شہر کا منظر ان دنوں کچھ یوں تھا کہ جیسا پوری دنیا کے میڈیا نے یہاں بسیرا لگا لیا ہو۔ میں ان دنوں صحافت کے میدان میں نیا نیا آیا تھا، زیادہ تجربہ نہیں تھا، پشاور سے شائع ہونے والے ایک مقامی انگریزی اخبار 'دی خیبر میل انٹرنیشنل' کے ساتھ منسلک تھا۔
پاکستان میں اس وقت تک نجی ٹی وی چینلز کا وجود نہیں تھا۔ اس زمانے میں پشاور سے چند ہی اخبارات شائع ہوتے تھے۔ یہاں کوئی بڑی میڈیا مارکیٹ نہیں تھی۔ لیکن افغانستان کے ایشو نے پہلی مرتبہ اس شہر کو ایک بڑی مارکیٹ کے طورپر متعارف کرایا۔ افغان جہاد کے دوران بھی پشاور کی اپنی ایک اہمیت ضرور رہی تھی لیکن اس وقت غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی رسائی صرف چند سینیئر صحافیوں تک محدود تھی لیکن 9/11 نے ہم جیسے 'کب جرنلسٹس' یا غیر تجربہ کار صحافیوں کو بھی منجھے ہوئے جنگ کور کرنے والے 'وار رپورٹرز' کے ساتھ کام کرنے کا موقع فراہم کیا اور اس تجربے نے آگے جا کر ہمیں فیلڈ میں فائدہ بھی دیا۔
پشاور میں ان دنوں اتنے غیر ملکی صحافی موجود تھے کہ ان کے ساتھ کام کرنے والا کوئی مقامی 'فکسر' دستیاب نہیں تھا۔ پشاور کے قریباً تمام صحافی باہر سے آنے والی کسی نہ کسی بین الاقوامی میڈیا ٹیم کے ساتھ کام کر رہے ہوتے تھے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ بعض اخبارات کے غیر صحافی سٹاف فکسنگ کے کام میں لگ گئے کیونکہ اس وقت مقامی میڈیا ملازمین کی بڑی ضرورت تھی لیکن پھر بھی یہ کمی پوری نہیں ہوئی اور اس طرح کچھ سرکاری سکولوں کے اساتذہ بھی بطور ترجمان اور فکسر کے کام کرتے ہوئے نظر آئے۔
چونکہ اس وقت فیلڈ میں نئے نئے آئے تھے، جوانی تھی اور پھر صحافت کا چسکا بھی نیا نیا لگا تھا تو کسی چیز پر جیسے بریک نہیں لگتی تھی جس کی وجہ سے کچھ غلطیاں بھی سرزد ہوئیں۔
میں ان دنوں فرانس کے ایک ٹی وی چینل ٹی ایف ون کے دو صحافیوں کے ساتھ کام کرتا تھا۔ اس وقت قبائلی علاقوں میں جانے کے لئے غیر ملکی صحافیوں کو حکومت کی طرف سے باقاعدہ اجازت لینی پڑتی تھی، اس کے بغیر وہاں عالمی میڈیا کے نمائندوں کو کام کرنے پر پابندی عائد تھی۔
فرانسیسی صحافیوں کو قبائلی علاقے میں داخل ہونے اور وہاں سے رپورٹ کرنے کا جنون کا شوق تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ قبائلی علاقے کے اندر جا کر حالات دیکھیں اور وہاں رہنے والے افغان مہاجرین سے انٹرویوز کیے جائیں اور پھر افغانستان کے حالات کے بارے میں قبائل کا مؤقف بھی معلوم کیا جائے۔ ہم نے کوشش کی کہ سرکار کی طرف سے اجازت مل جائے لیکن محکمہ داخلہ نے انکار کر دیا۔
یہ غالباً 4 اکتوبر کی بات ہے جب ہم نے چوری چھپے قبائلی علاقے میں جانے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے باڑہ کے دو مقامی صحافیوں اقبال آفریدی اور سید کرم کو بھی اپنے ہمراہ لے لیا کیونکہ وہ راستوں سے واقف تھے۔ یہ وہ دور تھا جب قبائلی علاقے میں تصویر لینا بھی برا سمجھا جاتا تھا وڈیو کیمرا چلانا تو دور کی بات تھی۔ ہم باڑہ سے ہوتے ہوئے تھوڑی ہی دور آگے گئے تھے کہ چورے کے مقام پر وڈیو فلم بناتے ہوئے ہمیں حکومتی حامی مقامی قبائل نے گرفتار کر لیا۔ اس وقت ان قبائل کی سربراہی حاجی عمل گل نامی ایک قبائلی مشر کر رہے تھے جو بعد میں شدت پسندوں کے ایک حملے میں مارے گئے۔
رات تک ہمیں مقامی جرگے نے ایک خوبصورت پہاڑی مقام پر رکھا جہاں رات کے کھانے میں مہمان ہونے کی حیثیت سے ہماری بڑی تواضع بھی کی گئی۔ پھر اسی رات دو غیر ملکیوں سمیت ہم پانچ صحافیوں کو خیبر ایجنسی کی پولیٹکل انتظامیہ کے حوالے کر دیا گیا، رات ہم نے باڑہ تحصیل میں گزاری، اس وقت محمد افتخار باڑہ کے تحصیل دار تھے جو بعد میں شمالی وزیرستان میں ایک حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
محمد افتخار کا تعلق میرے گاؤں ہنگو سے تھا اور ان سے ہمارے پہلے سے پرانے خاندانی مراسم تھے۔ انہوں نے ہماری بڑی خاطر مدارت کی۔ وہ میری گرفتاری پر بڑے خفا بھی ہوئے لیکن وہ اس مرحلے پر کسی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے کیونکہ ہماری گرفتاری کی خبر پشاور کے تمام اخبار نویسوں کو پہنچ چکی تھی۔
صبح ہمیں خیبر ہاؤس پشاور منتقل کر دیا گیا۔ خیبر ہاؤس پشاور اس وقت پولیٹکل ایجنٹ خیبر ایجنسی کا مرکزی دفتر ہوا کرتا تھا۔
فرانسیسی صحافی دو دنوں کے بعد رہا کر دیے گئے جب کہ ہم تین مقامی صحافی قریباً دو ہفتوں تک پابند سلاسل رہے۔ خیبر ہاؤس کے اندر دو چھوٹے چھوٹے لاک اپ بنے ہوئے تھے جسے کوئی باقاعدہ جیل تو نہیں کہا جا سکتا لیکن چھوٹی نوعیت کے جرائم میں ملوث ملزمان کو وہاں رکھا جاتا تھا۔ ہمیں وہاں ایک خصوصی سیل میں رکھا گیا جہاں زیادہ پابندیاں نہیں تھیں۔ صحافی ہونے کے ناطے لائن آفیسر (سپرنٹینڈنٹ جیل) ہمارے ساتھ زیادہ سختی نہیں کرتا تھا بلکہ کئی چیزوں میں ہمیں رعایت دے رکھی تھی، ہمارے سیل میں چرس پینے کی اجازت تھی جب کہ ہم کھانا بھی باہر سے منگوایا کرتے تھے۔
اس وقت کے پولیٹکل ایجنٹ خیبر ڈاکٹر فدا وزیر میرے بڑے بھائی مرحوم ڈاکٹر محمد سعید کے میڈیکل کالج میں کلاس فیلو رہ چکے تھے۔ گرفتاری کے چار پانچ دنوں کے بعد میرے بھائی کی کوششوں سے مجھے پولیٹکل ایجنٹ کی طرف سے مشروط رہائی کی پیشکش کی گئی لیکن دیگر دو مقامی صحافیوں کے بارے میں کہا گیا کہ انہیں رہا نہیں کیا جائے گا۔ تاہم، میں نے مشروط رہائی قبول کرنے سے انکار کر دیا اور بڑے بھائی سے کہا کہ یہ تو ہماری روایات کے خلاف ہے کہ جو میری وجہ سے گرفتار ہوئے وہ جیل میں رہے اور مجھے رہائی مل جائے۔ لہٰذا معذرت کے ساتھ میں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
پشاور کے صحافی دوستوں بالخصوص ناصر مہمند اور سہیل قلندر مرحوم نے ہماری رہائی کے لئے ہر فورم پر آواز اٹھائی اور احتجاج بھی کیا۔ اس کے علاوہ بعض سیاسی رہنماؤں نے بھی ہمارے حق میں آواز بلند کی۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان اس وقت اپوزیشن میں تھے۔ انہوں نے پشاور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ہماری رہائی کا مطالبہ کر دیا۔ جب ہر طرف سے آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں تو دو ہفتوں کے بعد ہمیں رہائی مل گئی۔
افغانستان پر امریکی حملے اور بعد کے حالات نے اگر ایک طرف ہمارے خطے کو سب سے زیادہ متاثر کیا تو دوسری طرف یہاں کے صحافیوں کے لئے کچھ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوئے۔ امریکی حملے کی وجہ سے اس خطے پر عالمی میڈیا کا فوکس بڑھ گیا تھا اور کئی میڈیائی اداروں نے پاکستان اور افغانستان کے لئے خصوصی پروگراموں کا نیا سلسلہ شروع کیا جس سے سب سے پہلے مقامی اخبار نویس مستفید ہوئے اور انہیں نوکریاں ملیں۔ اس طرح مجھ جیسے کئی مقامی صحافی عالمی میڈیا کے اداروں سے منسلک ہوئے۔ صحافت میں اچانک سکوپ کو دیکھتے ہوئے کئی جونیئر صحافیوں نے اسے بطور پیشہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔
20 سال کے بعد جب افغانستان پر دوبارہ سے طالبان نے قبضہ کیا تو ان دو فرانسیسی صحافیوں میں سے ایک نے مجھ سے رابط کیا اور کہا کہ افغانستان میں سب کچھ دوبارہ ریورس ہو گیا ہے، کیا خیال ہمیں پھر سے پشاور نہیں آنا چاہیے؟ میں نے انہیں کہا کہ اس مرتبہ آپ آئیں گے تو ہمیں اپنے اوپر بھی ایک سٹوری کرنی چاہیے۔ لیکن ابھی تک نہیں آئے۔
مصنف پشاور کے سینیئر صحافی ہیں۔ وہ افغانستان، کالعدم تنظیموں، ضم شدہ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے ایشوز پر لکھتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔