سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف وفاقی حکومت سمیت دیگر متاثرین کی انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم بحال کر دیں۔ تفصیلی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی اپیل نیک نیتی پر مبنی نہیں، عمران خان ثابت نہیں کر سکے کہ یہ ترامیم غیر آئینی ہیں۔
فیصلہ دینے والے بینچ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل تھے۔ سپریم کورٹ نے یہ متفقہ فیصلہ 0-5 سے سنایا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد نیب آرڈیننس میں 2022 میں ہونے والی ترامیم اپنی حالت میں بحال ہو گئی ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان اپیلوں پر مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ ملک کے آئینی اداروں میں مداخلت کرے اور پارلیمنٹ کے گیٹ کیپر کا کردار ادا کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ترامیم آئین کے خلاف ہیں اور نا ہی بنیادی انسانی حقوق کے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کو آئین سازی کا اختیار ہے اور سابق وزیر اعظم عمران خان یہ ثابت نہیں کر سکے کہ یہ ترامیم غیر آئینی ہیں۔ تفصیلی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ نیب قانون میں ہونے والی کئی ترامیم کے معمار بانی پی ٹی آئی خود ہیں، نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی اپیل نیک نیتی پر مبنی نہیں۔
انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کرنے والے ججز میں شامل جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اضافی نوٹ میں اگرچہ ان ترامیم کو آئینی قرار دیا ہے تاہم انہوں نے وفاق کی جانب سے اپیل مسترد کی ہے جبکہ باقی اپیلوں کو منظور کیا ہے۔
یاد رہے سابق وزیر اعظم عمران خان نے پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے نیب آرڈیننس میں کی جانے والی ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ بعد ازاں 15 ستمبر 2023 کو اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 1-2 کی اکثریت سے پارلیمنٹ سے منظور کی جانے والی ان ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا۔ اس تین رکنی بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے اس فیصلے سے اختلاف کیا تھا، جبکہ سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال اور سابق جسٹس اعجاز الاحسن نے نیب ترامیم کالعدم قرار دی تھیں۔
اس فیصلے کے خلاف اس وقت کی پی ڈی ایم حکومت نے اپیل دائر کی تھی جو چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی ریٹائرمنٹ تک سماعت کے لیے مقرر نہیں کی گئی تھی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کے بعد یہ اپیل سماعت کے لیے مقرر کی گئی تھی۔
وفاق اور دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے دائر ان اپیلوں پر عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو بھی نوٹس جاری کیا تھا اور وہ اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے ان اپیلوں پر ہونے والی عدالتی کارروائی میں شامل ہوئے تھے۔ عمران خان الزام عائد کرتے ہیں کہ نیب میں ترامیم شریف خاندان اور زرداری خاندان نے اپنی کرپشن چھپانے کے لیے کی ہیں۔
نیب قانون میں ہونے والی ترامیم
نیب کے قانون میں 27 ترامیم سے متعلق بل گذشتہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے مئی 2022 میں منظور کیا گیا تھا۔ تاہم، صدر عارف علوی نے اس بل پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد پی ڈی ایم حکومت نے جون 2022 میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس کی منظوری دی تھی۔
اس قانون سازی کے تحت بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان ترامیم کو قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے آغاز سے نافذ سمجھا جائے گا۔ قانون میں جو اہم ترمیم کی گئی اس میں کہا گیا تھا کہ نیب 50 کروڑ سے کم مالیت کے معاملات کی تحقیقات نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ نیب دھوکہ دہی کے کسی مقدمے کی تحقیقات تبھی کر سکتا ہے جب متاثرین کی تعداد 100 سے زیادہ ہو۔
نیب آرڈیننس میں یہ بھی ترمیم کی گئی تھی کہ نیب کسی بھی ملزم کا زیادہ سے زیادہ 14 دن کا ریمانڈ لے سکتا ہے۔ تاہم، بعد ازاں اس میں مزید ترمیم کرتے ہوئے اس مدت کو 30 دن تک بڑھا دیا گیا تھا۔ قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکتا تھا اور ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے نکال دیا گیا تھا۔
بل میں کہا گیا تھا کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی۔ ان ترامیم کے بعد چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی مدت ملازمت میں بھی ایک برس کی کمی کر کے اسے تین سال کر دیا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ چیئرمین نیب کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد نیب کا ڈپٹی چیئرمین بیورو کا قائم مقام چیئرمین بنے گا۔