”کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی“

”کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی“
کورونا کی وباء نے جہاں ترقی یافتہ ملکوں اور قوموں کے بخیے ادھیڑ دیے ہیں وہاں پاکستان جیسے ترقی پذیرممالک اور کم شرح تعلیم کی حامل قوموں کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ حکومتوں کی جانب سے صحت اورتحقیق کے شعبے کو نظر انداز کرنے کے نتائج کبھی کبھی بہت ہی بھیانک صورت میں سامنے آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بطور معاشرہ یہ حقیقت بھی آشکار ہوگئی ہے کہ بحیثیت فرد صرف ہمارے حکمران ہی نہیں ہم میں سے زیادہ تر محض باتوں سے کام چلانے کے عادی ہوچکے ہیں۔

کیوں کہ عملی لحاظ سے ہم دوسرے کو نصیحت کرنے میں زیادہ آسانی اورراحت محسوس کرتے ہیں۔ ہمارا عمومی رویہ یہی ہے کہ ہم بہتری، ترقی وخوشحالی کے مواقع پیدا کرنے کے بجائے دوسروں کا منہ دیکھتے ہیں یاپھرکسی غیبی مدد کے منتظر رہتے ہیں اوراگرخدانخواستہ کورونا جیسی کوئی نا گہانی آفت ٹوٹ پڑے تو تب ہمیں یادآجا تا ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم اللہ کے محبوب بندے ہیں دنیا بھلے تباہ ہوجائے ہمارا کچھ نہیں بگڑ سکت۔ ہم اپنا موازنہ وبا ءمیں مبتلا ان قوموں سے کرنا شروع کردیتے ہیں کہ جن کی انسانیت کے لئے خدمات اورایجادات میں نہ تو ہمارا کوئی کردار یا حصہ ہے اور نہ ہی اس کا ہم تصور کرسکتے ہیں۔
کورونا پھیلنے کے بعد ہم سانپ اورچھپکلی سمیت ہرطرح کے حشرت الاارض کو بہ طور خوراک استعمال کرنے والے چینیوں کومورد الزام ٹھرانے میں ایک لمحہ ضائع کئے بغیر حقائق کوسرے سے ہی نظراندازکردیتے ہیں۔ اورتب ہمیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ ”پاک چین دوستی ہمالیہ سے اونچی اور سمندر سے زیادہ گہری ہے “کے نعرے کا کیابنے گا۔ اس کے علاوہ ہم اپنے ایمان کی مضبوطی ثابت کرنے کےلئے کسی بھی وباء یا آفت کوفوری طور پر یہودو نصاریٰ کی سازش قرار دینے سے بھی نہیں چوکتے۔

ہم اپنے طورپر یہ نتیجہ بھی اخذ کرلیتے ہیں کہ ہونہ ہو یہ کورونا چینیوں کی اسی ”خوش خوراکی“کا نتیجہ ہے یاپھر اسلام اورمسلمانوں کے ازلی دشمن یہودیوں اور کفارکی کسی نئی سازش کا شاخسانہ۔ حالاں کہ چینی قوم تو صدیو ں سے یہی خوراک استعمال کرتی آرہی ہے اور ماضی میں تو ایسی کوئی حیاتیاتی وباء نہیں جو چین یا چینی قوم سے پھوٹی ہو اوراس نے ساری دنیا کو لاک ڈاﺅن کردیا ہو۔ اپنے ایمان کی ”طاقت “کو ثابت کرنے کے چکر میں ہم یہ حقیقت بھی سرے سے فراموش کردیتے ہیں کہ یہودی دنیا کے طاقتور ترین ملک امریکا کی معیشت اورسیاسی معاملات کو کنٹرول کرنے والی قوم ہے،جو لوگ کرپشن کی دلدل میں گھٹنوں گھٹنوں دھنسے پاکستان جیسے سیکڑوں ملکوں کو قرضوں کے شکنجے میں جکڑ کرجب چاہیں اس کے بل کس دیں انہیں کیا پڑی ہے کہ وہ چند کروڑ مسلمانوں کو مارنے کے لئے اپنے حامی ملکوں اور قوموں کو کورونا جیسی مصیبت میں مبتلا کریں۔

کیا یہ حقیقت نظرانداز کی جاسکتی ہے کہ امریکا سمیت یورپ کی تمام ترترقی یہودی سرمایہ کاروں کی مرہون منت ہے؟ اقوام متحدہ اور آئی ایم ایف سمیت تمام بڑے عالمی مالیا تی ادارے یہودی سرمایہ کاروں کے تابع ہیں؟۔کیا اعداد و شمار یہ ثابت نہیں کرتے کہ آج دنیاکی ترقی یافتہ قوموں کے12 لاکھ سے زائد لوگ کورونا وائرس میں مبتلا اور 60 ہزار سے زائد اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔جبکہ محض چند ہزار مسلمان اس وباء کا شکار اور چند سو اس سے ہلاک ہوئے ہیں ۔پھر بھی ہمارے ہاں ایک بہت بڑے طبقے کا اصرار ہے کہ ہونہ ہو کورونا وائرس کسی یہودی سازش کا شاخسانہ ہے لیکن اللہ کو آج کے مسلمانوں کے اعمال اس قدر ”پسند“ہیں کہ اس نے اپنی حکمت سے اس وباءکا رخ مسلمانوں کے بجائے اسلام کے نام لیواﺅں کے بجائے کفار کی جانب موڑ دیا۔ ہمارے خیال میں اس سے بڑی کوئی خوش فہمی نہیں ہوسکتی اور کوئی مانے یا نہ مانے اس سچائی کو نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ ہم خوش فہمیوں میں زندہ رہنے والی قوم ہیں۔

ہمارے خیال میں تو خوش فہمیوں میں مبتلا لوگ اور قومیں تاریخ کے کسی ورق پر پڑی گرد سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔
خوش فہمی سے یاد آیا کہ اتوار 5اپریل کو لاہور کے گورنر ہاﺅس کے باہر جمع سیکڑوں لو گوں کو دیکھ کر تو یہی لگتا تھا کہ ہم حکومت کی جانب سے عوام کے بچاﺅ اور کورونا جیسی عالمی وباءسے تحفظ کے لئے جاری لاک ڈاﺅن کی ”قیمت“ وصول کرنے میں پیچھے نہیں رہنا چاہتے۔ مال روڈ پر گورنر ہاﺅس کے باہر جمع موٹرسائیکلوں ،چنگ چی رکشاﺅں اورحتیٰ کہ دور کھڑی پک اپس کو دیکھ کر تو یہی محسوس ہورہا تھا کہ ہم خودارقوم نہیں بل کہ ایک بھکاری قوم بن چکے ہیں جوہر طرح کے حالات میں مال مفت دل بے رحم کی عملی تصویر بن چکی ہے۔

ہمیں تو اس مفت کا راشن لینے والوں میں کہیں کوئی سفید پوش نظر نہیں آیا۔ سفید پوش کے لیے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا زندہ درگور ہونے کے مترادف ہوتاہے۔ نامعلوم یہ معاشرے کا کون سا طبقہ ہے جو امداد لینے والوں کی ہرلائن کو اتنا لمبا کردیتا ہے کہ سفید پوش او سفیدپوشی کا بھرم بھی ان سے منہ چھپاتا پھرتا ہے۔