شوگر بحران نے تحریک انصاف کی حکومت کو ایسا جھٹکا دیا ہے جس کی شدت اسلام آباد میں محسوس کی جا رہی ہے۔ اس بحران کے باعث نہ صرف وزیر اعظم عمرا ن خان کو شدید سبکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہیں وزیر اعظم کے اس گمان کو بھی سخت ٹھیس پہنچی ہے کہ ان کی ٹیم صاف شفاف اور کرپشن سے پاک ہے۔
شوگر بحران سے متعلق چند روز پہلے آنے والی ایف آئی اے کی سنسنی خیز رپورٹ کے آفٹر شاکس کل سامنے آئے، جب نہ صرف کابینہ میں انتہائی اہم ردوبدل ہوئے بلکہ تحریک انصاف کے اہم ترین کردار جہانگیر خان ترین کے خلاف بھی ایکشن ہوا جو اگر نہ ہوتے تو شاید آج تحریک انصاف اقتدار میں ہی نہ ہوتی۔
عمران خان کو رپورٹ کے فارنزک آڈٹ کا انتظار تھا جو 25 اپریل کو سامنے آنا تھا جس کے بعد حتمی کارروائی ہونی تھی۔
کل وزیر اعظم نے وہ ایکشن کر ڈالا جس نے ملک کی سیاست اور بالخصوص تحریک انصاف کے ممبران کو حیران کر ڈالا۔ وزیر اعظم عمران خان خود اپنے قریبی ساتھی اور پارٹی کے سینئر رہنما جہانگیر خان ترین کے خلاف بھرپور انداز میں متحرک ہو گئے ہیں۔
ایف آئی اے کی رپورٹ میں جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کا نام ہونے کے باوجود اس رپورٹ کا سامنے آنا اس لئے بھی قابلِ تحسین ہے کیونکہ ماضی میں اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملتی جہاں حکومتی افراد کے خلاف کوئی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آئی ہو لیکن اس رپورٹ کے سامنے آنے میں جہاں میڈیا نے کردار ادا کیا وہیں کچھ اہم وفاقی وزرا بھی عمران خان سے بار بار تحقیقات کر کے رپورٹ پبلک کرنے کا مطالبہ کرتے رہے۔
ایک رخ یہ بھی ہے کہ ایف آئی اے کی رپورٹ پہلے میڈیا میں لیک ہو گئی تھی، اس کے بعد حکومت کے پاس رپورٹ کو شائع کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں تھا، لیکن میڈیا میں رپورٹ سامنے آنے کے بعد خود وزیر اعظم بھی منظر عام پر آئے اور نہ صرف اس رپورٹ کا کریڈٹ لیا، بلکہ فارنزک آڈٹ کے بعد 25 اپریل کو ایکشن کا عندیہ بھی دیا۔
تاہم ایکشن کے لئے 25 اپریل تک کے انتظار پر میڈیا نے سوالات اٹھائے اور وزیر اعظم پر ایکشن لینے کے لئے دباﺅ بڑھ گیا اور شائد اسی دباﺅ کے باعث سب سے پہلے جہانگیر خان ترین کو حکومت کی بنائی گئی زرعی ٹاسک فورس سے برخاست کیا گیا جس کی اطلاع شہباز گل نے ایک ٹویٹ کے ذریعے قوم تک پہنچائی۔
جس کا جواب جہانگیر خان ترین نے ٹویٹ میں ہی یہ دیا کہ وہ اس ٹاسک فورس کو چیئر کر ہی کب رہے تھے اور شہباز گل کو نوٹیفیکیشن دکھانے کا کہا۔
ابھی یہ سب زیرغور ہی تھا کہ وفاقی کابینہ میں بھی بڑے پیمانے پر ردوبدل ہونا شروع ہو گیا جس کے مطابق اس سکینڈل کے ایک اور اہم کردار خسرو بختیار سے وزارت خوراک کا قلمدان لے کر ان کو اقتصادی امور کا وزیر بنا دیا گیا اور فخر امام کو وزارت خوراک سونپ دی گئی ہے۔ صنعت و پیدوار کے مشیر عبدالزاق داﺅد کو بھی وزارت سے فارغ کر دیا گیا جس کے بعد وہ شوگر ایڈوائزری بورڈ کے چئرمین کے طور پر بھی برطرف ہو گئے۔ یہ ہی وہ ایڈوائزری بورڈ تھا جس نے چینی برآمد کرنے کی سفارش کی تھی۔
خبریں تو مسلسل زیر گردش تھیں کہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور جہانگیر ترین کے درمیان شدید اختلافات ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بھرپور کوششوں میں ہیں۔ اب خود انہوں نے ان افواہوں کی تصدیق بھی کر دی ہے اور شوگر بحران سے متعلق اس رپورٹ کے پیچھے کھل کر اعظم خان کا نام لیا۔ میڈیا انٹرویوز میں جہانگیر ترین نے اس تحقیقاتی رپورٹ کو سیاسی قرار دیتے ہوئے اس کے پیچھے وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کا نام لیا۔
شوگر بحران کی تحقیقات رپورٹ میں سامنے آنے والے دوسرے بڑے کردار خسرو بختیار نے بھی کل بطور وزیر خوراک اپنا استعفا وزیراعظم کو بھجوایا۔ کئی ماہ تک وزیر خوراک رہنے کے باوجود انہوں نے اپنے مستعفی ہونے کی وجہ مفادات کے ٹکراﺅ کو قرار دیا۔
اپنے استعفے میں خسرو بختیار نے مزید کہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں شوگر سیکٹر سے متعلق ان کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ انہوں نے شوگر انڈسٹری سے متعلق تمام فیصلوں سے خود کو دور رکھا ہے اور سابق وزیر خزانہ اسد عمر کی سربراہی میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اس اجلاس میں بطور وزیر پلاننگ بھی شرکت نہیں کی، جس میں شوگر ایکسپورٹ کی اجازت کا معاملہ زیر بحث آیا تھا۔
ایف آئی اے کی اس رپورٹ کے آفٹر شاکس جہاں وفاقی سطح پر محسوس کیے گئے وہیں اس کا کچھ اثر پنجاب پر بھی پڑا ہے۔ ایف آئی اے کی اس تحقیقاتی رپورٹ میں شوگر بحران سے متعلق پنجاب حکومت کے کردار پر بھی انگلیاں اٹھائی گئیں تھی اور خاص طور پر باقی تمام صوبوں کے علاوہ پنجاب کی جانب سے شوگر انڈسٹری کو دی جانے والی سبسڈی کے فیصلے پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔ ایف آئی اے رپورٹ میں وزیر خوراک پنجاب سمیع اللہ چودھری کو گندم بحران کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا کیونکہ وہ اصلاحاتی ایجنڈا تشکیل نہ دے سکے۔ رپورٹ میں ان پر پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ میں موجود خامیوں کو دور نہ کر سکنے کے ذمہ داری بھی عائد کی گئی تھی، سوالات کا جواب نہ ہونے کے باعث یا ممکنہ کارروائی سے قبل ہی وزیر خوراک پنجاب نے بھی اپنا استعفا دینے کا فیصلہ کر لیا۔
سنسنی خیز رپورٹ کی بات کی جائے تو اس کے مطابق گندم اور چینی بحران کا سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین نے اٹھایا ہے، دوسرے نمبر پر وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی اور تیسرے نمبر میں حکومتی اتحادی مونس الٰہی کے نام شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی آٹا بحران کی اہم وجہ رہی ہے۔
ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیا کی مرتب کردہ رپورٹوں کے مطابق چینی، گندم بحران کی ذمہ دار شخصیات کا تعلق وفاقی حکومت، پنجاب حکومت اور خیبر پختونخوا حکومت سے ہے لیکن تمام ذمہ داروں کے نام ان رپورٹوں میں شامل نہیں کیے گئے۔
رپورٹ میں جہانگیر ترین، خسرو بختیار کے بھائی، شریف گروپ اور اومنی گروپ کا نام ہے لیکن چند اہم باتوں کا ذکر اب بھی نہیں۔ ای سی سی اور شوگر ایڈوائزری بورڈ نے چینی برآمد کا فیصلہ کیوں اورکس کے کہنے پر کیا؟
اس انکوائری میں یہ بھی ذکر نہیں کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی حکومت نے کس کے دباؤ میں آ کر شوگر ملز کو سبسڈی اور برآمدات کی اجازت دے دی۔
رپورٹ کے مطابق ان شوگر ملز کو سبسڈی ایک ایسے وقت پر دی گئی جب مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
رپورٹ کے مطابق شوگر ملز نے باقاعدہ منصوبے کے تحت ملز بند کیں اور بعد میں سستے داموں گنا خریدا مگر زیادہ منافع کی دوڑ میں اس کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچایا۔ تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی آٹا بحران کی بڑی وجہ بنی۔
یہ صورتحال حکومت کے لئے کتنی فکر انگیز ہو سکتی ہے اور یہ رپورٹ کتنی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے؟ کیا 25 اپریل کی فارنزک آڈٹ کے بعد آنے والی رپورٹ میں ان ناموں کو بھی منظرعام پر لایا جائے گا جنہوں نے شوگر مافیا کی مدد میں بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا؟ ان سوالات کا جواب دینا شاید حکومت کے لئے مشکل ہو جائے گا، لیکن جس عمران خان کو ہم نے ووٹ دیا ہے، وہ ان لوگوں کا مکمل احتساب کر کے سزا دیں گے۔
مصنفہ سما نیوز پر پروڈیوسر ہیں، اور اس سے قبل مختلف صحافتی اداروں کے ساتھ منسلک رہ چکی ہیں۔