زلفی بخاری، سابق صدر مملکت اور وزرائے اعظم سے بھی زیادہ طاقتور ہیں؟

زلفی بخاری، سابق صدر مملکت اور وزرائے اعظم سے بھی زیادہ طاقتور ہیں؟
قومی احتساب بیورو ( نیب) نے وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی زلفی بخاری کے خلاف انکوائری عدم شواہد کی بنیاد پر بند کر دی۔ دوسری جانب چیئرمین نیب کے زیر صدارت ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں سابق صدر آصف علی زرداری، اور دو سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دے دی۔

اس خبر کو دیکھنے کے بعد میرے ذہن میں رام گوپال ورما کی فلم ''ستیہ'' کا ڈائیلاگ آیا "ممبئی کا کنگ کون؟ بھیکو ماترے"! یقیناً بھیکو ماترے جیسا غرور، ٖفخر اور تکبر زلفی بخاری کو بھی آیا ہو گا۔ آف شور کمپنیوں کے حوالے سے انکوائری بند ہونے پر سینہ فخر سے پھول گیا ہو گا، یہ سوچ کر سر تکبر سے مزید اونچا ہو گیا ہو گا کہ عمران خان کے دوست ہونے کی حیثیت میں وہ سابق نمائندہ منتخب صدر اور وزرائے اعظم سے بھی ذیادہ بااثر، طاقتور اور اہم ہیں۔

پاکستان میں عمران خان کے دوستوں کا کوئی کیا بگاڑ پائے گا۔ برطانوی شہریت کے حامل سید ذوالفقار عباس بخاری المعروف زلفی بخاری کا شمار عمران خان کے قریبی دوستوں میں ہوتا ہے، اور یہی اُن کی قابلیت اور پہچان ہے۔ جب عمران خان اپنی انتخابی مہم کے دوران بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ نئے پاکستان میں لوگ باہر سے نوکریاں کرنے آئیں گے، تو گمان یہی ہے کہ ان کا اشارہ زلفی بخاری جیسے دوستوں کی طرف ہی رہا ہو گا۔ ایسے ہی دوستوں کے لئے عمران خان نے اپنے دوہری شہریت کے مؤقف کے حوالے سے یوٹرن لیا اور پھر ایک غیر ملکی کو وزیراعظم کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا۔ ابھی نوازشوں کا سلسلہ تھما نہیں ہے، لندن میں میزبانی سے لے کر جہازوں پر غیر ملکی دورے، نکاح، طلاق میں گواہیاں جیسے کئی قرض شائد ابھی باقی ہیں، جو اس حکومت میں ہی اُتارے جائیں گے۔

نیب اپوزیشن کو کنٹرول کرنے اور سیاسی انجئینرنگ کا ایک بدنام آلہ ہے، نئے پاکستان میں یہ ادارہ تحریک انصاف کی بی ٹیم کے طور پر کام کرتا دکھائی دیتا ہے، یہ حکومتی وزرا اور عمران خان کے دوستوں کو کلین چٹ دیتا ہے جبکہ اپوزیشن رہنماؤں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسایا جاتا ہے۔ گرفتاریاں بھی صرف اپوزیشن رہنماؤں کی ہوئیں، سابق صدر زرداری کو اربوں، کھربوں روپے کی کرپشن کے الزامات اور میڈیا ٹرائل کے بعد، محض ڈیڑھ کروڑ روپے کرپشن کے جھوٹے مقدمے میں گرفتار کیا گیا، سیاسی مخالفین کی خواتین کے خلاف بھی نیب کو استعمال کیا گیا، مریم نواز گرفتار ہوئیں۔ فریال تالپور کو آدھی رات کے وقت ہسپتال سے اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا۔ اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریاں ہوتی رہیں لیکن حکومتی وزرا اور تحریک انصاف کے لاڈلے رہنماؤں کو ریلیف فراہم کیا جا تا رہا۔ نیب چیئرمین جواز یہ پیش کرتے رہے کہ اگر حکومتی اراکین کے خلاف کارروائیاں عمل میں لائی گئیں تو حکومت گر سکتی ہے۔

اب حالیہ جعلی احتساب کے نام پر عمران خان کے دوست زلفی بخاری کو تو کلین چٹ مل گئی، مگر عوام کے منتخب سابق صدر مملکت، اور دو سابق وزرائے اعظم  کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دے دی  گئی، یہ انتقامی سیاست کی نئی لہر ہے۔ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ ایک طرف ملک کو نیب کے ذریعے انصاف کے دہرے معیار کے تحت چلایا جا رہا ہے، اور دوسری جانب اپوزیشن کے سیاست دانوں کو بدنام کرنے اور کنٹرول کرنے کیلئے مہم چلائی جا رہی ہے، ناجائز کیسز بنائے جا رہے ہیں۔ جس سے پاکستان کی سیاست اور معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ عدم استحکام، مہنگائی، بیروزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اور ریاست کا مستقبل تاریک سے تاریک ہوتا جا رہا ہے۔

نیا پاکستان درحقیقت عمران خان فرینڈز کلب ہے، جس میں عمران خان کے دوستوں، ساتھیوں کو نوازنے کے سوا اور کچھ بھی کام دھندا نہیں ہے۔ دوستوں، ساتھیوں کو بھی پتہ ہے کہ ایک بار ہی موقع ملا ہے، جتنا لوٹ مار کر سکتے ہو، کر لو۔ کون پوچھنے والا ہے، سب ہاتھ میں ہے، ہم ہی طاقتور ہیں، سب کو کلین چیٹ مل جائے گی۔ پھر ڈر خوف کس بات کا؟ پاکستان پیپلزپارٹی کا اس نئی نیب نیازی احتسابی لہر پر مؤقف ہے کہ نیب کھوٹا سکہ بن چکا ہے۔ اس ادارے کی کوئی بھی ساکھ نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی مرکزی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات پلوشہ خان کا نیب کی طرف سے سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف نئے ریفرنس دائر کرنے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عمران خان جب بھی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں تو نیب یک دم حرکت میں آ جاتا ہے۔ اب جبکہ سلیکٹڈ کے تمام اتحادی ان کے خلاف وعدہ خلافیوں کی شکایات کر کے حکومت سے علیحدگی کے لئے پَر تول رہے ہیں تو ایسے میں چیئرمین نیب ایک نئی طوطا کہانی گھڑ کر معاملات سے توجہ ہٹانے کے لئے کردار ادا کر رہے ہیں۔