امر جلیل تو ایک کہانی کار ہے: 'خدارا معاشرے کو خون آشام نہ بنائیں'

امر جلیل تو ایک کہانی کار ہے: 'خدارا معاشرے کو خون آشام نہ بنائیں'
وہ کہانی کار ہے۔ اسکی اپنی ہی ایک دنیا ہے۔ جہاں وہ اور اسکے کردار بستے ہیں۔ وہ ان کرداروں کو زبان دیتا ہے۔ انکے منہ سے مکالمے ادا کرواتا ہے۔ اس عہد کا سچ ایک فکشن لکھنے والا اپنے کرداروں اور افسانوں کے ذریعہ بیان کرتا ہے۔ فکشن کی زبان وہی سمجھ سکتا ہے جو فکشن کو پڑھتا ہو۔ فکشن کو سمجھتا ہوں فکشن کو جانتا ہو۔ ،یہ وہ صحرا ہے جس کے مسافروں کی مسافت طویل ہوتی ہے۔ اس دشت میں ہر کوئی داخل نہیں ہو سکتا۔ امر جلیل بھی اسی دشت کہانی کا مسافر ہے۔ وہ اپنی کہانیوں میں آج کے دور کے موضوع بیان کرتا ہے۔ کوئی بھی تحلیق کار اپنے کردار اسی سماج سے لیتا ہے کرہ ارض کے مسائل پر بات کرتا ہے، اس کے کردار چاند سے یا دوسرے سیاروں سے سے نہیں آتے۔ اگر اس بات کو اردو زبان کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی زبان میں بیان کروں تو یوں کہوں گا کہ: اگر آپ کو میرے افسانے ناقابل برداشت لگتے ہیں تو اس کا مطلب ہے سماج ناقابلِ برداشت ہے جو خامیاں آپ کو میری تحریروں میں نظر آتی ہیں وہ دراصل اس معاشرے کی خامیاں ہیں۔ لہٰذہ ہم کو کسی فکشن لکھنے والے کی ذات پر کیچڑ اچھالنے سے پہلے اپنا گریبان چاک کرنا چاہیے۔ اپنے معاشرے کا پوسٹ مارٹم کرنا چاہیے۔

ادیب سماج کا ایکسرے کرتا ہے۔ وہ اپنی تحریروں میں سماج کا عکس دکھاتا ہے۔ یہی امر جلیل نے کیا ہے۔ کیا اس نے اپنی کہانی میں اس سماج کے ایک سچ کو بیان نہیں کیا؟ اگر اس نے جھوٹ بولا ہے تو اس کو جھوٹا ثابت کریں؟ خدارا اسکی ذات پر کیچڑ نہ اچھالیں۔ بنام مذہب اس پر تہمت نہ لگائیں۔ کیا آپ ایک اور سلمان تاثیر جیسا واقعہ چاہتے ہیں؟ پھر بنام مذہب ایک قتل چاہتے ہیں۔ آخر کیوں؟ ہم اپنے سماج کو اس قدر ناقابل برداشت کیوں بنا رہے ہیں؟ آزادی اظہار پر اس قدر قدغن کیوں لگا رہے ہیں اپنی مرضی کا سچ کیوں سننا چاہتے ہیں۔ ہم نے اس سماج کو ناقابل برداشت بنا دیا ہے! پہلے سرمد سلطان کھوسٹ کی فلم ،زندگی تماشا  کو ریلیز نہیں ہونے دیا۔

وہ فلم بین الاقوامی سطح پر دیکھی جا رہی ہے پسند کی جا رہی ہے مگر ہم نے اپنے ملک میں پابندی عائد کر دی۔ایسا سب ہی کچھ امر جلیل کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ کیا اس معاشرے میں تخلیق کار کے لیئے کوئی جگہ نہیں رہے گی۔ کیا ساحر لدھیانوی اور قرہ العین حیدر نے ٹھیک کیا تھا جو ادھر سے کوچ کر گئے تھے؟ کیا امر جلیل اور سرمد سلطان کھوسٹ بھی یہی کریں؟ خدارا ایسا نہ کریں۔ یہ تخلیقات کرنے والوں کی وکٹ ہے۔ ان ہی کو کھیلنے دیں۔ یہ آپ کا کام نہیں ہے آپ نہیں کر سکتے آپ کے اخبار کی شہ سرخی کسی افسانہ نگار کی جان لے سکتی ہے۔ ابھی  سلمان تاثیر کی خون کی سرخی آسمان سے خشک نہیں ہوئی،کیا ایک اور خون ناحق آپ چاہتے ہیں؟ آزادی اظہار کا حق اگر معاشرے سے ختم کر دیا جائے تو وہ سماج ایک جنگل بن جاتا ہے۔ جہاں خون آشام درندوں کی حکومت ہوتی ہے وطن عزیز کو خون آشام جنگل نہ بنائیں۔ اس کو انسانوں کا ملک رہنے دیں۔

جہاں سوچنے سمجھنے والے انسان بستے ہوں؟ وہ ایک دوسرے کی بات سنیں بحث ومباحثہ کریں۔ ایک دوسرے کو دلیل سے غلط ثابت کریں نہ کہ بنام مذہب ایک دوسرے پر قتل کے فتویٰ لگائیں۔ یہاں افسانے لکھیں جائیں ناول لکھیں جائیں شاعری ہو فلمیں بنیں ڈرامے بنیں۔ ہم ان پر بحث کریں بطور ناقد ان پر گفتگو کریں۔ مضامین لکھیں اور آنے والی نسلوں کو ایک بہتر پاکستان دے کر جائیں۔ خدارا سوچیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپکی یہ تہمت بازی ایک افسانہ نگار کی جان لے لے۔ 

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔