درسی کتابیں تخلیقی سوچ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں

ٹیکسٹ بک کے تصور نے اگرچہ مذہبی مدارس میں جنم لیا مگر جدید درسگاہیں بھی اس تصور سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ جدید دنیا میں جو یونیورسٹیاں ہیں وہ ابتداً مذہبی مدارس ہی تھے۔ انقلاب فرانس کے بعد اگرچہ تعلیم مذہبی تسلط سے تو آزاد ہو گئی مگر فکری استبداد سے پیچھا نہیں چھڑا سکی۔

درسی کتابیں تخلیقی سوچ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں

کوئی ایک عشرہ قبل لاہور میں ایک پرائیویٹ یونیورسٹی نے مجھے کمپیوٹر سائنس کے طلبہ کو فلسفے کا ایک ابتدائی کورس پڑھانے کی دعوت دی۔ کورس آؤٹ لائن پر گفتگو کرنے کے لیے جب میں ڈین صاحب کے پاس گیا تو انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ میں کون سی ٹیکسٹ بک استعمال کروں گا۔ میرا جواب تھا کہ فلسفے میں ٹیکسٹ بک نہیں ہوتی۔ یہ جواب ان کے لیے کسی حد تک صدمہ انگیز تھا۔ کہنے لگے کہ کسی مضمون کو ٹیکسٹ بک کے بغیر کس طرح پڑھایا جا سکتا ہے۔ خیر کچھ دیر تبادلہ خیال کے بعد وہ میرے مؤقف کے تو شاید قائل نہ ہوئے مگر بادل نخواستہ انہوں نے مجھے اپنی مرضی سے کورس پڑھانے کی اجازت دے دی۔

میرا مؤقف تھا کہ ٹیکسٹ بک کا تصور اصلاً ایک مذہبی تصور ہے اور فلسفے میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ اجمال کسی قدر تفصیل کا تقاضا کرتا ہے۔

انسانی معاشروں میں تعلیم و تعلم کا سلسلہ ہزاروں سال سے جاری ہے اور یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ تقریباً ہر معاشرے میں تعلیم پر اہل مذہب کا اجارہ رہا ہے۔ مذہبی عقائد مسلمات پر مبنی ہوتے ہیں جن میں کسی چوں چرا کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ہر معاملے پر ایک قطعی اور دو ٹوک رائے ہوتی ہے جس کو تسلیم کرنا ہر ایک پر لازم ہوتا ہے۔ تمام امور طے شدہ ہوتے ہیں اور ان پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے اور نا ہی ان کے جواز پر کوئی دلیل طلب کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ عام لوگوں کو تعلیم دینے کی خاطر ایسی کتابیں تحریر کی جاتی ہیں جن میں صرف مصدقہ عقائد درج کیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ان میں مخالف مذاہب کے گمراہ کن عقائد کا بھی تذکرہ کر دیا جاتا ہے تاکہ لوگ بھٹکنے نہ پائیں۔

ٹیکسٹ بک کے تصور نے اگرچہ مذہبی مدارس میں جنم لیا مگر جدید درسگاہیں بھی اس تصور سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ جدید دنیا میں جو یونیورسٹیاں ہیں وہ ابتداً مذہبی مدارس ہی تھے۔ یہ تو انقلاب فرانس تھا جس کے بعد تعلیم مذہبی تسلط سے آزاد ہوئی۔ مغرب میں جب سائنسی انقلاب برپا ہوا تو وہ مذہب کے نہیں بلکہ مذہب کے فکری استبداد کے خلاف تھا۔ کوپرنیکس، کیپلر، گیلیلیو اور نیوٹن سمیت زیادہ تر لوگ کٹڑ مذہبی تھے لیکن وہ یہ بات تسلیم کرنے سے انکاری تھے کہ ہر بات کی بائبل سے یا چرچ سے تصدیق ضروری ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مذہبی استبداد سے آزاد ہونے کے باوجود تعلیم فکری استبداد سے آزاد نہ ہو سکی۔

کارل پوپر کا کہنا تھا کہ مغربی فکر کا سانچہ الہٰیاتی ہے۔ سائنسی انقلاب بھی ایک نئے سیکولر مذہب کا نقطہ آغاز تھا جس کا پیغمبر فرانسس بیکن تھا۔ اس انقلاب میں تبدیلی یہ آئی کہ مذہب میں جہاں خدا کا لفظ آتا تھا، اس کی جگہ فطرت کا لفظ رکھ دیا گیا۔ خدائی قوانین کو قوانین فطرت، خدا کی قدرت کو فطرت کی طاقتوں سے بدل دیا گیا۔ ڈارون کے بعد خدا کے ڈیزائن کی جگہ طبعی انتخاب کو مل گئی۔ الہٰیاتی جبریت کو سائنسی جبریت کا نام دے دیا گیا۔ ان تمام تر تبدیلیوں کے باوجود فکری سانچے میں کوئی تغیر رونما نہیں ہو سکا اور اس میں تحکم اور ادعا کا ہی غلبہ رہا۔

میری بدقسمتی ہے کہ میں کبھی سائنس کا طالب علم نہیں رہا اس لیے اس کے نصابات کے بارے میں کوئی رائے دینے سے قاصر ہوں۔ البتہ سائنس پڑھنے والوں سے جب کبھی گفتگو کا موقع ملا تو الا ماشاء اللہ میں نے انہیں کبھی مولویوں سے مختلف نہیں پایا۔ سائنس کے نصابات کے بارے میں بھی یہی پتہ چلا ہے کہ ان میں جو بھی نظریہ بیان کیا جاتا ہے وہ حتمی اور ثابت شدہ ہوتا ہے۔ وہ تازہ ترین سائنسی نظریات کے متعلق اسی جزم کے ساتھ اظہار خیال کرتے ہیں جس طرح حنفی فقہ کے مدارس میں مولوی حضرات حنفی فقہ کے بارے میں کرتے ہیں۔ وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ خود سائنس میں بعض بہت بڑے نام کچھ مختلف خیالات رکھتے ہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

طبیعیات میں کوانٹم فزکس نیلز بوہر کی تعبیر کے مطابق پڑھائی جاتی ہے جسے کوپن ہیگن تعبیر بھی کہا جاتا ہے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ اس باب میں آئن سٹائن کی رائے کچھ اور تھی۔ ڈیوڈ بوہم بھی کوپن ہیگن تعبیر سے متفق نہیں تھا۔ کوئی دو دہائیاں قبل کچھ سائنس دان ریاضیاتی طور پر ڈیوڈ بوہم کے مؤقف کو درست ثابت کر چکے ہیں اور آئن سٹائن کی تائید کرتے ہوئے کوپن ہیگن تعبیر کو رد کر چکے ہیں۔ میں اس لائق نہیں ہوں کہ اس نئی تعبیر پر کوئی رائے دے سکوں؛ صرف اس خیال کا اظہار مقصود ہے کہ یہ باتیں نصابی کتب میں جگہ پاتی ہیں اور نا ہی طالب علم ان سے آگاہ ہوتے ہیں۔ طالب علم کے نزدیک سائنس وہی ہوتی ہے جو اس کی نصابی کتب میں لکھی ہوتی ہے۔

اگر میں اپنے مضمون یعنی فلسفے کا جائزہ لوں تو عجیب و غریب صورت حال سے واسطہ پڑتا ہے۔ مختلف فلسفیانہ مکاتبِ فکر اتنے ہی تنگ نظر ہیں جتنے کہ مذہبی یا نظریاتی گروہ۔ بیسویں صدی میں اگر اثرات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو کارل پوپر کا نام شاید سرفہرست ہو۔ اگر کوئی Citation Index دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ مختلف علوم میں جن فلسفیوں کا حوالہ دیا جاتا ہے، ان میں کارل پوپر کا نام سب سے اوپر ہے۔ ڈیوڈ ہیوم کے بعد پوپر ہے جس نے استقرائی منطق (Inductive logic) پر سب سے مؤثر تنقید کی ہے۔ اس کے باوجود وٹگنسٹائن کے ایک شاگرد نے جب استقرائی منطق پر کتاب لکھی تو پوپر کا کہیں نام لینا بھی مناسب نہیں سمجھا۔

دراصل دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ میں فلسفے کے شعبوں پر وٹگنسٹائن کے پیروکاروں کا غلبہ ہو گیا اس لیے فلسفے کے نصابوں میں آج تک پوپر کو جگہ نہیں مل سکی۔ ترقی یافتہ دنیا کی کسی یونیورسٹی میں پوپر کے فلسفے پر کوئی کورس نہیں پڑھایا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ عام پڑھے لکھے لوگ برٹرینڈ رسل کے بعد سب سے زیادہ پوپر کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ پوپر کی تمام تر کتابیں پیپر بیک میں دستیاب ہیں اور ان کے ایڈیشن مسلسل چھپ رہے ہیں۔

کچھ یہی حال معاشیات کے نصابات کا ہے۔ ابھی تک ہر جگہ کینز  (Keneys)کی معاشیات پڑھائی جا رہی ہے۔ 1990 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں اپنے بزرگ دوست شیخ صلاح الدین صاحب کو میں نے ایف اے ہائک کی کتاب [Law, Legislation and Liberty] مطالعہ کے لیے دی۔ کچھ ہفتوں کے بعد جب میں شیخ صاحب کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوا تو وہ بہت حیران تھے کہ انہوں نے معاشیات کے کئی پروفیسروں سے پوچھا مگر کسی کو ہائک کا نام بھی معلوم نہیں۔ واضح رہے کہ 1974 میں ہائک کو اقتصادیات کا نوبیل انعام دیا گیا تھا اور وہ فری مارکیٹ اکانومی کا علمبردار پہلا ماہر اقتصادیات تھا جو نوبیل انعام کا حق دار ٹھہرا تھا مگر اکنامکس کی درسی کتابوں میں وہ کہیں جگہ نہیں پا سکا۔

ہمارے ہاں بہت سے لوگ اس بات پر شکوہ کناں رہتے ہیں کہ مطالعہ پاکستان اور تاریخ کی کتابوں میں غلط باتیں پڑھائی جاتی ہیں۔ تاریخ اور معاشرتی علوم تو خیر ایسے مضامین ہیں جو ہر ملک میں اپنے سرکاری اور قومی مؤقف کی تائید میں پڑھائے جاتے ہیں۔ گذشتہ صدی کی شاید 90 کی دہائی میں امریکہ کے سکولوں میں ایک سروے کیا گیا تو پتہ چلا کہ طالب علموں کی کثیر تعداد اس بات سے بے خبر تھی کہ دوسری عالمی جنگ میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم امریکہ نے گرائے تھے۔ اس بات کو میں کسی جواز کے طور پر نہیں پیش کر رہا بلکہ صرف اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ یہ وہ معاملات ہیں جہاں معروضی حقائق کو ثابت کرنا ایک دشوار امر ہے۔

تاریخ کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ زیادہ تر درباری مصنفین نے لکھی ہے اور اپنے آقاؤں کی منشا کے مطابق لکھی گئی ہے یا پھر اس میں قومی مفادات کی پاسداری کی جاتی ہے۔ برٹرینڈ رسل کہا کرتا تھا کہ تاریخ ہمیشہ کسی دوسری قوم کے فرد کو لکھنی چاہیے۔ مگر تعصب کا مسئلہ تو شاید پھر بھی حل نہ سکے۔ ایک برطانوی کے لیے فرانسیسی یا جرمن کی لکھی ہوئی تاریخ قابل قبول نہ ہو گی۔ امریکہ میں تو شمال اور جنوب کے اختلافات ابھی تک موجود ہیں۔ جنوب کے مؤرخین ابراہام لنکن کو ہیرو تسلیم کرنے سے آج بھی انکاری ہیں۔ ان کے نزدیک وہ جمہوری رہنما کے بجائے ایک آمر تھا۔

چنانچہ میرا مؤقف یہ ہے کہ تعلیمی نقطہ نظر سے ٹیکسٹ بک کی افادیت مشکوک ہے کیونکہ ہر ٹیکسٹ بک اپنے مضمون کی غلط اور مسخ شدہ تصویر پیش کرتی ہے۔ اس میں مجادلہ افکار کہیں نظر نہیں آتا بلکہ مضمون کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے جہاں سب کچھ حتمی اور ثابت شدہ ہوتا ہے۔ ہر مضمون کی ٹیکسٹ بک اس مضمون کی اسٹیبلشمنٹ کی ترجمان ہوتی ہے۔ اس لیے جو لوگ خود کو نصابی کتابوں کے مطالعے تک محدود کر لیتے ہیں ان میں جدتِ فکر کے آثار کبھی نمودار نہیں ہوتے۔ میں کتابوں پر پابندی لگانے کے حق میں نہیں ہوں مگر میرا خیال ہے کہ نصابی کتابوں کے قابل ضبطی ہونے میں کوئی ہرج نہیں۔

ڈاکٹر ساجد علی فلسفے کے استاد ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے انہوں نے فلسفے میں ایم اے کیا جبکہ پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ چند سال قبل پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ سے بطور پروفیسر ریٹائر ہوئے ہیں۔