Get Alerts

اقلیتی برادری کو ڈپٹی سپیکر سندھ اسمبلی انتھونی نوید سے کیا توقعات ہیں؟

اقلیتی برادری امید رکھتی ہے کہ اب جلد ہی ان کے مسائل بھی حل ہوں گے۔ اقلیتی برادری یہ بھی توقع رکھتی ہے کہ مستقبل میں اقلیتی ارکان کو جنرل سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا حق دیا جائے گا تا کہ وہ اپنی برادری کی پوری طرح نمائندگی کر سکیں۔

اقلیتی برادری کو ڈپٹی سپیکر سندھ اسمبلی انتھونی نوید سے کیا توقعات ہیں؟

پاکستان میں آئین شہریوں کو الیکشن کے ذریعے اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے کا حق دیتا ہے جو ان کی آواز بن سکیں تاہم گذشتہ 70 سے زائد برسوں کے دوران ملک کی اقلیتی برادری کو مناسب نمائندگی اب تک حاصل نہیں ہو سکی۔ کیا حال ہی میں ہونے والے انتخابات ماضی کے مقابلے میں اقلیتی برادری کے لیے بہتر ثابت ہوئے؟

پاکستان کے آئین کے مطابق مذہبی اقلیتوں کے لیے قومی اسمبلی میں 10، سینیٹ میں 4 اور تمام صوبائی اسمبلیوں میں 24 نشستیں مختص ہیں جن میں سے سندھ اسمبلی میں 9، پنجاب میں 8، خیبر پختونخوا میں 4 اور بلوچستان میں 3 نشستیں شامل ہیں۔

آج اقلیتی نمائندوں کو جنرل نشستوں پر الیکشن لڑنے کا حق حاصل ہے، تاہم زیادہ تر سیاسی جماعتیں انہیں جنرل نشستوں پر الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ دینے سے گریز کرتی ہیں۔ اس کےعلاوہ اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں پر انتخاب لڑنے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ اس کے بجائے سیاسی جماعتیں جنرل نشستوں کے لیے ان امیدواروں کو نامزد کرتی ہیں جو باآسانی جیت سکتے ہوں۔ اس سے اقلیتی برادریوں میں خدشات بڑھ جاتے ہیں کیونکہ ان مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے امیدوار ووٹرز کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتے، اس کے بجائے وہ اکثر اپنی سیاسی جماعتوں کے مفادات کو پورا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

توہین مذہب کے الزامات، جبری مذہب تبدیلی، اہم قانون سازی میں ناکامی، جڑانوالہ اور گھوٹکی میں عبادت گاہوں پر حملے، قبرستانوں کی بے حرمتی، ملازمتوں کے کوٹے پر عمل درآمد نہ ہونا، مردم شماری میں کم گنتی وغیرہ جیسے سنگین مسائل بڑے پیمانے پر آج بھی جوں کے توں موجود ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اقلیتی سٹیک ہولڈرز فیصلہ سازی کے عمل میں حصہ نہیں لیتے یا انہیں اس کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔ ان مسائل کو حل کرنے اور ان کی نمائندگی کے مسائل کے حل کے لیے اقلیتی نمائندوں کو جنرل نشستوں پر کم از کم 5 فیصد نمائندگی دینی چاہیے، جیسا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 206 کے تحت تمام سیاسی جماعتوں کے لیے خواتین کو 5 فیصد کوٹہ دینا لازم قرار دیا گیا ہے۔

حال ہی میں ہونے والے انتخابات کی صورت حال ماضی کے مقابلے میں اقلیتوں کے لیے کوئی مختلف نہیں تھی۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن سیما جاوید کہتی ہیں کہ 'موجودہ انتخابی عمل کے ہوتے ہوئے جو ایم این اے یا سینیٹر میدان میں آتے ہیں وہ پارٹیوں کو تو خوش کر سکتے ہیں لیکن جب تک وہ عوام کے مسائل حل نہیں کریں گے ایک رہنما کا فقدان رہے گا'۔

انہوں نے کہا کہ 'اس سے پہلے کرشنا کماری اور انور لال سینیٹر بنے لیکن انہوں نے مسائل کے حل کے لیے کوئی خاص اقدام نہیں اٹھائے۔ جب تک ہمارا جمہوری نظام آزادی حاصل نہیں کرے گا تمام سیاست دان آدھے اسیر اور آدھے وزیر ہی رہیں گے'۔

انتخابات 2024 میں اقلیتی برادری کہاں کھڑی ہے؟

خیبر پختونخوا صوبائی اسمبلی کی کل نشستیں 145 ہیں جن میں 115 جنرل نشستیں ہیں۔ خیبر پختونخوا میں خواتین کے لیے 26 جبکہ غیرمسلموں کے لیے 4 نشستیں ہوتی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں غیر مسلموں کی مخصوص نشستوں پر جمعیت علمائے اسلام کے اسکر پرویز، پاکستان مسلم لیگ ن کے سریش کمار اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بیری لال کامیاب قرار پائے ہیں۔

اس بار صوبے میں ایک اور تبدیلی یہ دیکھی گئی کہ ضلع بونیر سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر سویرا پرکاش ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون تھیں جو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر جنرل نشست پر حلقہ پی کے 25 سے انتخابات میں حصہ لے رہی تھیں لیکن بدقسمتی سے وہ ناکام رہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

بلوچستان اسمبلی میں کل 65 نشستیں ہیں جن میں سے 51 پر براہ راست انتخاب ہوتا ہے۔ بلوچستان میں خواتین کے لیے 11 جبکہ غیر مسلموں کے لیے 3 نشستیں مخصوص کی گئی ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں غیر مسلموں کی مخصوص نشست پر پاکستان پیپلز پارٹی کے سنجے کمار، مسلم لیگ ن کے پیٹرک سینٹ مسیح اور جمعیت علماء اسلام پاکستان کے روی پوجا کامیاب قرار پائے۔

سندھ اسمبلی میں اقلیتوں کی 9 مخصوص نشستیں ہیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے 6 ارکان منتخب ہوئے، تاہم اقلیت کی ایک اور خواتین کی 2 نشستوں پر فیصلہ نہیں ہوا۔

پیپلز پارٹی کی ہیرسوہو پانچویں مرتبہ سندھ اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں جبکہ ڈاکٹر کھٹو مل جیون چوتھی بار رکن منتخب ہوئے۔

اس کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار مہیش کمار ملانی مسلسل دوسری بار جنرل نشست پر جیت کر بطور اقلیتی سیاست دان ایک نئی تاریخ رقم کرنے میں کامیاب رہے۔ مہیش کمار ملانی نے تھرپارکر کے حلقہ این اے 205 میں سابق وزیر اعلیٰ سندھ اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جے ڈی اے) کے امیدوار ارباب غلام رحیم کو شکست دی۔ وہ 2018 کے انتخابات میں تھرپارکر سے ہی پہلی بار قومی اسمبلی کی نشست پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

سندھ میں ایک مثبت تبدیلی یہ بھی دیکھی گئی کہ پیپلز پارٹی نے اقلیتی نشست پر منتخب ہونے والے نوید انتھونی کو ڈپٹی سپیکر نامزد کیا اور وہ یہ عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس طرح نوید انتھونی ملکی تاریخ کے پہلے مسیحی ڈپٹی سپیکر بن گئے۔ انتھونی نوید پہلے مسیحی ڈپٹی سپیکر ہیں جو مخصوص نشست سے اس عہدے پر پہنچے ہیں۔

انتھونی نوید 1971 میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے پولیٹیکل سائنس اور انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے سیاست کا آغاز 2005 میں اس وقت کیا جب وہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کا حصہ بنے۔ انہوں نے نچلی سطح سے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا اور 2005 سے 2010 تک کراچی کے علاقے جمشید ٹاؤن یوسی ون کے نائب ناظم بھی رہے۔

2016 سے 2017 تک وہ وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی بھی رہ چکے ہیں۔ 2018 میں پیپلز پارٹی نے انہیں سندھ اسمبلی کی اقلیتی نشست کے لیے اپنا امیدوار نامزد کیا اور وہ اس میں کامیاب رہے۔ چنانچہ 2018 سے 2023 تک وہ پیپلز پارٹی کی جانب سے سندھ کی صوبائی اسمبلی کے رکن رہے۔

رکن سندھ اسمبلی کے طور پر انہوں نے ایک مجوزہ بل کے خلاف بھی بات کی جس میں درخواست دہندگان کے لیے ضروری تھا کہ وہ درخواست دینے سے پہلے اپنی مذہبی شناخت ظاہر کریں۔ انتھونی نوید کے مطابق ایسی قانون سازی سے ملک میں مذہبی امتیاز کو مزید تقویت ملے گی۔

پاکستان مینارٹی الائنس کے چیئرمین اکمل بھٹی کے مطابق انتھونی نوید کے ڈپٹی سپیکر منتخب ہونے کو پاکستان میں بہت سے لوگوں نے مثبت انداز میں دیکھا، یہ اس بات کی علامت ہے کہ سب سے زیادہ پسماندہ گروہوں کو معاشی، سماجی اور سیاسی شعبوں میں ترقی کے مساوی مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔

انتھونی نوید کا کہنا ہے کہ میں پیپلز پارٹی کا شکر گزار ہوں جس نے تمام اقلیتوں بشمول مسیحی برادری کے حقوق کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بطور اقلیتی رہنما انہیں اپنے سیاسی سفر کے دوران کئی چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑا اور کئی مواقع بھی ملے لیکن مشکلات کا تناسب زیادہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ اگر آپ کسی ایسی سیاسی جماعت کے ساتھ منسلک ہوں جو ترقی پسند، لبرل اور انسانیت کے فروغ کو اولین ترجیح دے اور ہر کسی کو یکساں مواقع فراہم کرے تو وہاں اگر آپ محنت اور ذمہ داری کے ساتھ کام کریں تو مواقع خود بخود ملتے ہیں۔ مخلوط انتخابات میں غیر مسلم اکائیوں کے لیے چیزیں کافی بہتر ہیں بشرطیکہ وہ سیاسی عمل کا حصہ بنیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک میں آئینی طور پر امتیاز ضرور ہے لیکن مجموعی طور پر معاشرے کے رویے چیلنجز کا سبب بنتے ہیں۔ جب تک ہم ایک دوسرے کے قریب نہیں آئیں گے اور آپس میں رابطہ نہیں ہو گا تو دوریاں کم نہیں ہوں گی بلکہ بڑھیں گی۔ سیاسی جماعتیں ہی لوگوں کے رویوں میں تبدیلی لا سکتی ہیں۔

عالمی سطح پر اقلیتوں سے متعلق پاکستان کا امیج بہتر بنانے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سپیکر یا ڈپٹی سپیکر کوئی کمیشن بنانے کی اتھارٹی تو نہیں رکھتا مگر اتنا ضرور ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی قانون سازی کرنا چاہتا ہے یا جہاں مذہبی اقلیتوں کے آئینی حقوق میں کوئی کمی ہے اور مزید کسی قسم کی قانون سازی کی ضرورت ہے تو اس میں لابنگ کر سکتا ہے اور ساتھی ممبران کو کسی ریفارم میں ایک پیچ پر لانے کے لیے وہ ضرور کردار ادا کر سکتا ہے۔

53 سالہ ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی کا کہنا تھا کہ میں کوشش کروں گا کہ خواتین کے کوکس کو دوبارہ فعال کیا جائے تا کہ خواتین اپنے مسائل کو وہاں اجاگر کر سکیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ بہت جلد اسمبلی میں اقلیتی ارکان پر مشتمل مینارٹی کوکس کی تشکیل کی کوشش کریں گے۔ پیپلز پارٹی ہمیشہ مارجنلائزڈ طبقے کو اپ لفٹ کرنے کے لیے کام کرتی رہی ہے جس طرح خواجہ سرا کو سٹی گورنمنٹ میں مخصوص نشستیں دے کر ان کو سیاسی دھارے میں لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اقلیتوں اور خواتین کی سہولت کے لیے بھی ہماری پارٹی اقدامات کر رہی ہے۔ کم عمری کی شادی کی روک تھام کے لیے بھی مزید اقدامات کیے جائیں گے اور 5 فیصد کوٹے پر تمام گریڈ پر اسامیوں کو پُر کرنے کی کوشش کریں گے۔

ڈپٹی سپیکر کے طور پر انتھونی نوید کے انتخاب کو ہر جگہ سراہا جا رہا ہے۔ اقلیتی برادری بھی امید رکھتی ہے کہ اب جلد ہی ان کے مسائل بھی حل ہوں گے۔ اقلیتی برادری یہ بھی توقع رکھتی ہے کہ مستقبل میں اقلیتی ارکان کو جنرل سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا حق دیا جائے گا تا کہ وہ اپنی برادری کی پوری طرح نمائندگی کر سکیں۔

نمائندگی کے مسائل کو حل کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ مخصوص نشستوں کے لیے امیدواروں کا انتخاب میرٹ کی بنیاد پر کیا جائے اور اقلیتوں کو جنرل نشست پر ٹکٹ دینے کے لیے سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے، اقلیتوں کو قومی دھارے میں شامل کرنا تب ہی ممکن ہو گا جب سیاست دانوں کے درمیان اتفاق ہو گا۔

ان معاملات سے متعلق نئی حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تا کہ مذہبی اقلیتوں کی کم نمائندگی کے بارے میں خدشات کو ختم کیا جا سکے۔ انتخابی عمل کو سب کے لیے منصفانہ بنانے سے برابری کو یقینی بنایا جائے جو جمہوریت کا اہم حصہ ہے۔

اقرا عاشق ڈان نیوز سے وابستہ ہیں اورملٹی میڈیا پروڈیوسر ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور سماجی مسائل بالخصوص خواتین کے مسائل سے متعلق لکھتی ہیں۔