کشمیر کا مسئلہ ایک تاریخی اور سیاسی پیچیدگی ہے، جس کے اثرات عالمی سطح پر محسوس ہوتے ہیں، ایک طرف بھارت کی سرکشی ہے، جو کشمیر میں اپنی فوجی موجودگی کو برقرار رکھے ہوئے ہے اور دوسری طرف کشمیری عوام کی بے مثال قربانیاں ہیں، جنہوں نے آزادی کے لیے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا۔ کشمیریوں کی یہ قربانیاں محض ایک قومی مسئلہ نہیں، بلکہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔
کشمیر کا مسئلہ ایشیاء کا سب سے بڑا علاقائی مسئلہ ہے جسے عالمی سطح پر حل کرنے کی ضرورت ہے، بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ ایک ایسا اقدام تھا جس نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا اور کشمیری عوام کو مزید مایوسی اور غمگینی کی حالت میں مبتلا کر دیا۔ اس کے باوجود، پاکستان نے اس معاملے پر جذباتی بیانات دیے، لیکن عملی اقدامات میں کمی رہی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم نے کشمیر کی آزادی کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے؟ کیا عالمی فورمز پر اس مسئلے کو اُٹھایا گیا؟ ہم اپنے داخلی مسائل حل کرنے میں ناکام ہیں، اور کشمیر کے مسئلے پر عالمی سطح پر ہماری آواز میں وہ گہرائی اور اثر نہیں ہے جو ہونی چاہیے۔
پاکستان نے کشمیر کے معاملے پر ہمیشہ جذباتی تقریروں کا سہارا لیا ہے، لیکن ان تقریروں سے کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ کشمیر کی تحریک کی حقیقت یہی ہے کہ یہ قربانیوں کی داستان ہے، اور ان قربانیوں کا حساب کتاب کبھی مکمل نہیں کیا جا سکتا۔ کشمیریوں نے اپنی جانوں، گھروں، اور عزتوں کی قربانی دی ہے، لیکن پاکستان میں حکومت کے رہنماؤں کی طرف سے کسی بھی طرح کا سنجیدہ عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ کشمیر کمیٹی اور دیگر ادارے اپنی جگہ پر موجود ہیں، لیکن ان کی عملی کارکردگی اور اثرات سوالیہ نشان ہیں۔
کشمیر کی تحریک میں جو قربانیاں دی گئیں، ان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ کشمیریوں کے جوانوں نے اپنی جانیں قربان کیں، ان کی بیٹیاں بیوہ ہوئیں، ان کے بچے یتیم ہو گئے، اور ان کے گھروں پر بلڈوزر چلے۔ ان کی یہ قربانیاں عالمی سطح پر انسانی حقوق کی ایک سنگین خلاف ورزی کی علامت بن چکی ہیں۔ لیکن جب بھارت نے آرٹیکل 370 کو ختم کیا، پاکستان نے کیا کیا؟ صرف کشمیر ہائی وے کا نام بدل کر کیا ہم نے کشمیریوں کی آزادی کے لیے کچھ کیا؟ کیا یہی ہماری سفارتی کامیابی ہے؟
جب تک پاکستان اپنے داخلی مسائل حل نہیں کرتا، اس وقت تک کشمیر کی آزادی محض ایک خواب رہے گی۔ اقتصادی اور سیاسی عدم استحکام پاکستان کی پوزیشن کو عالمی سطح پر کمزور کرتا ہے۔ کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر سنجیدہ طور پر اُٹھانے کے لیے پاکستان کو اپنے داخلی حالات کو بہتر بنانا ہوگا، تاکہ ہم عالمی برادری کو بتا سکیں کہ ہم کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے ایک سنجیدہ اور مستقل پوزیشن پر ہیں۔
اگر پاکستان کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر حل کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنی خارجہ پالیسی میں حقیقت پسندی کو شامل کرنا ہوگا۔ عالمی سطح پر اس مسئلے کو ایک اخلاقی موقف کے طور پر پیش کرنا ہوگا، تاکہ بھارت کو اخلاقی طور پر بے نقاب کیا جا سکے اور عالمی برادری کو پاکستان کے موقف کی حمایت کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔
پاکستان نے کشمیر کے مسئلے کو ہمیشہ جذباتی نعرے لگانے کی حد تک محدود رکھا ہے، لیکن یہ مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ یہ ایک عالمی انسانی مسئلہ ہے جسے سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر حل کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کشمیر کی آزادی کے لیے صرف ایک مضبوط سیاسی بیان کافی نہیں۔ ہمیں عالمی سطح پر ایک حقیقت پسندانہ اور مستقل موقف اختیار کرنا ہوگا۔
اگر پاکستان کشمیریوں کی حمایت کرنے کے لیے سنجیدہ ہے، تو اسے عالمی فورمز پر کشمیر کے مسئلے کو ایک انسانی حقوق کے مسئلے کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف ایک سیاسی تنازعہ نہیں، بلکہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ہمیں اپنے موقف کو عالمی سطح پر مستحکم کرنا ہوگا، تاکہ کشمیریوں کی آواز بلند ہو سکے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ہم کشمیر کے مسئلے کو ایک خواب کے طور پر نہ دیکھیں، بلکہ اس کے حل کے لیے عملی اقدامات کریں۔ اگر ہم واقعی کشمیر کی آزادی چاہتے ہیں تو ہمیں عالمی سطح پر ایک مستقل اور مضبوط موقف اختیار کرنا ہوگا، تاکہ کشمیریوں کو ان کا حق مل سکے۔ یہ مسئلہ صرف ایک علاقائی تنازعہ نہیں، بلکہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے، اور اس کے حل کے لیے عالمی سطح پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
کشمیر کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا حل صرف جذباتی بیان بازی سے نہیں نکلے گا۔ ہمیں اس مسئلے کو حقیقت پسندانہ اور عالمی سطح پر مضبوط موقف کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ کشمیری عوام کو ان کا حق مل سکے۔