”جب کبھی کُھل کر مسکرائے، تو یہی سنا کہ یہ لڑکی ہمیں رسوا کروائے گی“

”جب کبھی کُھل کر مسکرائے، تو یہی سنا کہ یہ لڑکی ہمیں رسوا کروائے گی“
پچھلے دنوں آمنہ جی کا بلاگ پڑھا جس کا عنوان تھا”وکلاء کو غصہ کیوں آیا؟ “

اب میں کوئی سوال سن لوں اور اس کے جواب کی تگ و دو نہ ہو، یہ شاید فطرت میں ہی نہیں ہے۔

 یہ اور بات ہے کہ اکثر سوالوں کے جواب غلط کھوجے ہیں، دراصل میرا مسئلہ یہ ہے کہ نہ گھر کے باہر کی دنیا سے آشنائی ہے اور نہ ہی کتابوں کی دنیا تک رسائی ہے۔ میرا جواب تو رسوئی (باورچی خانے) سےشروع ہو کر رسوائی کے ڈر کے اندر ہی قید ہوتا ہے۔

ہمیں تو بچپن سے یہی سننے کی عادت ہے کہ جب بھی دل کھل کر بے فکری سے مسکرائے، تو یہی طعنہ دیا جاتا ہے کہ یہ لڑکی ہمیں رسوا کروائے گی۔ تو ہنسی اور باہر کی دنیا سے تعلق توڑ کے ہی جیتی ہوں اور ہر سوال کا جواب اپنےاردگرد کھوجتی ہوں۔

اب جواب سہی ہے کہ غلط اس کا فیصلہ تو آپ سے اہل ہنر ہی کر سکتے ہیں مگر میرے گھر کی دنیا میں تو جب بھی کسی کو غصہ آئے تو قصور غصہ کرنے والے کا نہیں ہوتا، آمنہ جی قصور اس کو غصہ دلوانے والے کا ہوتا ہے۔

جیسے ابا کو غصہ آئے تو وجہ ہماری ہنسی کی آواز، روٹی کا ان کی پسند کے مطابق گول یا نرم نہ ہونا، کپڑوں کا ان کی مرضی کے مطابق استری نہ ہونا، ہمارا پڑھنے کی ضد کرنا، آستین کا چھوٹا ہونا یا روٹی کا موٹا ہونا غرض کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ مگر قصور ہمارا ہی ہو گا یہ تو طے ہوتا ہے نا۔

اب اگر کسی کو قطار میں نہیں کھڑا ہونا پسند تو اسے نہ کھڑا کریں نا، جیسے جب میں نے اپنی دوست کو بتایا تھا کہ شوہر بہت غصہ کرتے ہیں اور غصے میں گالی بھی دیتے ہیں تو اس نے مجھے سمجھایا تھا کہ تم اسے غصہ ہی نہ آنے دیا کرو۔ یعنی غلطی میری ہی تھی کہ میں اسے غصہ آنے دیتی تھی۔

مگر کیا کروں آمنہ جی صبح سے شام تک جتنی بھی کوشش کر لوں، نیند، آرام تک تیاگ دوں کچھ نہ کچھ ان کی منشاء کے خلاف ہو ہی جاتا ہے۔ اب میں نکمی یا نااہل ہوں تو وہ ہی کچھ محنت کر لیتے، حقیقی خدا کی طرح مجازی خدابھی ایک صحیفہ لکھ کر دے دیا کرے کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں، تو شاید کچھ بہتری آ جائے۔

مگر نہیں شاید عورت ذات ہے ہی نااہل، دیکھیں نہ آدم کو جنت سے نکلوانے سے لیکر پرانے دیوتاؤں کے دور تک، دکھ کا طلسمی بکسہ تو ہمیشہ عورت نے ہی تو کھولا ہے۔ مرد نے تو اس کا پھیلایا سمیٹا اور بھگتا ہے، ارے، ارے بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔  تو میں کہہ رہی تھی کہ قصور وکلاء کا نہیں، ان کو غصہ دلوانے والوں کا تھا۔

رکیے! رکیے مگر سچ! میرے چھوٹے سے گھر میں تو تقسیم روز اوّل سے واضح ہے ہر قصور اور گناہ میرا اور ہمیشہ حق پر مرد۔ مگر وہاں تو سامنے بھی ڈاکٹر تھے وہ بھی صحیح ہونے کے زعم میں ہوں گے، وہ بھی تو نیچا بولتے یا بات سلجھاتے تو اس پیشے کی مردانگی بھی کم ہو جاتی، واقعی گھر میں تو ایک کا صبر اور برداشت تو دوسرے کا غصہ اور برتری کا حق بڑا واضح ہوتا ہے مگر گھر کے باہر۔

دو پیشوں کے بیچ یہ فیصلہ کیسے ہو گا کہ کس کو نرمی سے بات کو سلجھانا ہے، کون غلط بات پر بھی غصہ کر سکتا ہے اور کسی کو حق پر ہوتے ہوئے بھی اچھی فضاء کو برقرار رکھنے کے لیے تھوڑا جھک جانے میں ہتک نہیں سمجھنی ہے۔

شاید گھر کی مثال گھر کے باہر، ریاست پر لاگو نہیں ہوتی ہے۔ کیونکہ گھر کے باہر شاید ہر ادارہ ہی شوہر بننے کو تیار ہے، مرد ہونے کو، سربراہ کہلانے کو بیتاب ہے، ہاں شاید ایسا ہی ہے، تو وہ جو سوکس میں پڑھا تھا کہ ریاست ماں کے جیسی وہ غلط تھا، گھر سے باہرکی دنیا میں ریاست عورت کے جیسی ہوتی ہے۔

ہاں ! شاید ایسا ہی ہے گھر میں ایک مرد ہی آپ کی سانس روکنے کو کافی ہوتا ہے تو ریاست بیچاری اتنے مختلف جتھوں کی سربراہی کیسے سہے گی، اسی لیے شاید بیچاری کا یہ حال ہے ایک کی غلامی میں سر جھکاتی ہے تو دوسرا ناراض، دوسرے کو راضی کرے تو پہلا گالی دینے کو تیار۔

ہائے ! مجھے تو اپنا دکھ بہت لگتا تھا مگر ریاست، وہ بیچاری اتنے سربراہوں کی سربراہی کیسے سہتی ہو گی، وہ تو بڑی بے بس اور تھک چکی ہو گی نا، سچ بولوں بڑا ہی ترس آرہا ہے بیچاری پر۔۔۔۔

مگر ریاست کیسے عورت ہو سکتی ہے، یا پھر شاید ہو سکتی ہے، بہت ہی الجھ گئی ہوں اپنے گھر کے اندر باہر کا جواب ڈھونڈنے لگی، چلیں چھوڑیں جواب تو میرا غلط ہی ہونا ہے مگر پھر بھی آمنہ جی ! ریاست عورت کی سی لگتی ہے نا۔