پاکستانی سیاست کا مقبول عام گیت تبدیلی اس وقت بھرپور لے میں گایا جا رہا ہے اور انترے کے بول ادا کیے جا رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے شاعر نے یہ بول مائنس ون سے متعلق لکھ ڈالے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ سامعین کو بہت پسند آ رہے ہیں۔ جیسے جیسے گیت ادا ہو رہا ہے سننے والوں کے رگ و پے میں سنسنی پھیلتی جا رہی ہے۔
اس سب کے ساتھ لگتا یوں ہے کہ تبیلی کے گیت میں مائنس ون کے اس انترے کا خصوصی میوزک دینے والے گروپ میں سینیئر صحافی سہیل وڑائچ طبلہ سنبھالے ہوئے ہیں جس کی دھمک میں آنے والے اتار چڑھاؤ سے سامعین کے جذبات میں بھی مدو جزر کا سلسلہ جاری ہے۔ سہیل وڑائچ مسلسل اس حوالے سے پیش گوئی کر رہے ہیں کہ سیاسی منظر نامے پر بڑی تبدیلی کسی بھی مائنس کے نتیجے میں برپا ہو سکتی ہے۔
انہوں نے تازہ ترین کالم بھی اسی حوالے سے لکھا ہے جو کم ازکم ایک ماہ میں اس موضوع پر چھٹا کالم ہے۔ متبادل مل گیا کے نام سے لکھے جانے والے اپنے اس کالم میں سہیل وڑائچ نے بلاواسطہ وزیر اعظم عمران خان کے تمام متبادل افراد کو تولا ہے۔ نہ صرف تولا ہے بلکہ یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ مقتدر حلقے یہی تول رہے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ وہ رات کو سونے سے پہلے بے چین تھے مائنس ون مائنس ٹو نے ان کے دماغ میں کھلبلی سی مچائی ہوئی تھی اور اسی حالت میں وہ سوئے تھے۔
سہیل وڑائچ پھر اپنا خواب بیان کرتے ہیں۔ دیکھتا کیا ہوں کہ روحانیت کے ہالے میں چند نورانی صورت بزرگ بیٹھے پاکستان کے نئے متبادل کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں، کن رس ہونے کے سبب فوراً باتیں سننے کی کوشش شروع کر دی۔
خاکی لباس میں ملبوس بزرگ نے تجویز پیش کی کہ اُن کا بھتیجا سب سے اچھا ہے۔ اس سفید ریش تجربہ کار نے کہا کہ کیا جرنیل، کیا جج اور کیا سیاستدان، سو افراد نے اُن کی کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر کے سو دنوں کی کارکردگی کو باقاعدہ اپنے دستخطوں کیساتھ سراہا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ پوری ملّتِ پاکستان کے متفقہ امیدوار ہیں، خانِ اعظم کا بھی اُن پر مکمل اعتماد ہے۔
یقیناً ان کا اشارہ اسد عمر کی طرف تھا جو جنرل عمر کے صاحبزادے ہیں اور اسی حوالے سے خاکی لباس والوں کے بھتیجے ٹھہرے۔ لیکن پھر خود ہی سہیل وڑائچ اسد عمر کے خلاف جانے والے حقائق بیان کرتے ہیں: ’’اونچی کرسی پر بیٹھے سیاہ پوش بزرگ نے کہا کہ یہ ٹیکنو کریٹ ٹائپ ہے۔ غیرسیاسی ذہن ہے۔ متبادل کو لازماً سیاسی ہونا چاہئے تاکہ سیاسی معاملات کو حل کر سکے۔‘‘
پھر لکھتے ہیں کہ اب محفل کی سب نظریں سبز پوش بزرگ پر تھیں وہ گویا ہوئے کہ بہاء الدین زکریا اور شاہ رکن عالم کی گدی کے وارث کو اقتدار دینے کا وقت آ گیا ہے۔ وہ معاملہ فہم ہے، منجھا ہوا سیاست کا کھلاڑی ہے۔
لیکن پھر شاہ محمود کے نقائص بھی گنواتے ہیں کہ سبز پوش نے بات کرتے کرتے تھوڑا سا توقف کیا تو کمبل پوش نے دخل اندازی کرتے ہوئے کہا خود پسندی بہت سی برائیوں کی جڑ ہے، اس شخص میں خود پسندی بہت ہے۔
پھر سہیل صاحب نے محمد میاں سومرو کا نام بھی تجویز کروایا اور اس کو بھی مسترد کروا دیا کہ اس پر پیپلز پارٹی راضی نہیں ہوگی کیونکہ سندھی ہےاور اس کا مخالف۔ سہیل وڑائچ کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کو کوئی ایسا شخص چاہیے جو پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو بھی قابلِ قبول ہو۔
سبز پوش نے پوچھا کہ تین متبادل سندھی، پنجابی اور اسلام آبادی تو مسترد ہو گئے تو کیا کوئی ڈارک ہارس (Dark Horse)برآمد ہوگا؟ سیاہ پوش نے زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ کہا نئے گھوڑے والا تجربہ تو پہلے ہی ناکام جا رہا ہے، اس لئے آزمودہ گھوڑا ہی بہتر طور پر کام کر سکتا ہے۔
متبادل ایسا ہو جو نہ منتقم ہو اور نہ لڑاکا۔ تجربہ کار ہو ماضی میں انتظامیہ کو چلانے کا تجربہ رکھتا ہو۔ پنجاب سے نہ ہو کہ (ن) لیگ کو اس سے خطرہ ہو سندھ سے بھی نہ ہو کیونکہ اس پر پیپلز پارٹی کو لگے گا کہ سندھی وزیراعظم لا کر پیپلز پارٹی کو کارنر کیا جائے گا۔ متبادل کا تعلق نہ حکومت کی اتحادی پارٹی سے ہو اور نہ ہی اپوزیشن سے بلکہ پی ٹی آئی کے اندر سے ہو کیونکہ اس سے مینڈیٹ کا فوکس بدل جائے گا۔
سیاہ پوش نے کہا کہ مجھے تو متبادل خیبر پختونخوا سے نظر آتا ہے۔ وہ سمارٹ موجودہ سے بھی کہیں زیادہ ہے، وزیر رہا ہے۔ وزیراعلیٰ رہا ہے، ضلع ناظم بھی رہ چکا ہے۔ اتحادی حکومت چلا چکا ہے۔
سیاست کے دائو پیچ جانتا ہے۔ پیپلز پارٹی میں رہا ہے، اس لئے انہیں بھی پختونخوا سے متبادل لائے جانے پر اتفاق ہو گا۔ ن لیگ کا بھی براہِ راست اس سے کوئی تصادم نہیں۔ مجھے تو یہ متبادل بہتر لگتا ہے۔ خاکی پوش بابا نے فوراً سر ہلایا اور کہا وہ دھیما ہے، کام اچھا چلا لے گا۔ یقیناً یہاں سہیل وڑائچ کا اشارہ نوشہرہ کے سابق ناظمِ اعلیٰ اور خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی طرف تھا جو آج کل وزیرِ دفاع بھی ہیں۔
کمبل پوش نے پھر دخل اندازی کرتے ہوئے کہا یہ انتظام اگلے الیکشن تک ہے، اس کے بعد تو اصلی منتخب آنا چاہئے۔ سیاہ پوش اور خاکی پوش دونوں نے اقرار میں سر ہلایا۔
سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ میں تو گناہ گار ہوں اسلئے میرے خوابوں میں شیطانی وسوسوں کا زیادہ امکان ہے مگر شیطان کے کام چونکہ مزیدار ہوتے ہیں، اس لئے جھوٹا خواب سنا رہا ہوں تاکہ مستقبل میں سند رہے۔
سہیل وڑائچ کے مطابق تو اقتدار کا ہمہ خیبر پختونخوا کے کمزور سے نمائندے کے کمزور سے کندھوں پر پڑنے لگا ہے جن کے دفاع میں بہت سے طاقتور حلقے ہیں۔ اب ہوگا کیا، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔